اتوار‬‮ ، 12 اکتوبر‬‮ 2025 

صاف ہوا سالانہ دو ملین جانیں بچا سکتی ہے،رپورٹ

datetime 18  جون‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

برلن (نیوزڈیسک)ہوا میں موجود آلودگی ختم کرنے کے نتیجے میں دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر دو ملین انسانی جانوں کا ضیاع روکا جا سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ترقی یافتہ خطوں میں بھی فضائی آلودگی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔معروف سائنسی جرنل ’ماحولیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین علاقوں کے علاوہ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں بھی فضائی آلودگی کو ختم کرنے سے اس آلودگی کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں کمی ممکن ہے۔ اس رپورٹ کے معاون مصنف جولین مارشل نے بدھ 17 جون کو بتایا، ”ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ ہوا کو آلودگی سے پاک کرنے کی ضرورت صرف آلودہ ترین ممالک میں ہی نہیں بلکہ اس کی ضرورت ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہے۔“یونیورسٹی آف مینیسوٹا سے وابستہ مارشل نے مزید کہا، ”یہ تو ہمیں معلوم ہی تھا کہ فضائی آلودگی والے خطوں میں ہوا کو صاف بنانے کی ضرورت ہے لیکن تحقیق کے نتائج سے واضح ہوا ہے کہ امریکا، کینیڈا اور یورپ میں بھی فضائی آلودگی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔“جولین مارشل کی ٹیم کی طرف سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے بری طرح متاثرہ ممالک مثال کے طور پر روس، چین اور بھارت میں اگر ہوا کو اقوام متحدہ کے معیارات کے مطابق صاف کر لیا جائے تو ان ممالک میں سالانہ بنیادوں پر 1.4 ملین انسانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ایسے خطے جہاں ہوا میں آلودگی زیادہ نہیں ہے، اگر وہاں فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے اہداف کو یقینی بنایا جائے تو وہاں سالانہ بنیادوں پر آلودگی کے باعث نصف ملین قبل از وقت ہلاکتوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔آلودہ ہوا میں موجود انتہائی باریک ذرات عمل تنفس کے دوران پھیپھڑوں کے بہت زیادہ اندر چلے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہی باریک ذرات سالانہ ایسی 3.2 ملین اموات کا باعث بن جاتے ہیں، جنہیں احتیاطی تدابیر کے باعث روکا جا سکتا ہے۔یونیوسٹی آف ٹیکساس سے منسلک جوشوآ آپٹے نئی دہلی میں اپنی تحقیق کے دوران اس رپورٹ کو تیار کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ جوشوآ آپٹے اور ان کے ساتھیوں نے اپنی توجہ ہوا میں موجود ایسے باریک ذرات پر مرکوز کی، جو 2.5 مائکرون سے بھی باریک اور چھوٹے تھے۔ ہوا میں موجود اس قسم کے ذرات دل کی بیماریوں، اسٹروکس، پھیپھڑوں کی پیچیدگیوں اور کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔اس طرح کے خطرناک ذرات کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس، کاروں سے خارج ہونی والی گیسوں اور صنعتی سبزمکانی گیسوں سے پیدا ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں کھانا پکانے اور موسم سرما میں گھروں کو گرم کرنے کی خاطر کوئلے اور لکڑیوں کو جلانے کے عمل سے بھی یہ خطرناک ذرات ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔یونیوسٹی آف ٹیکساس سے منسلک جوشوآ آپٹے نے خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”اس تحقیق کا مقصد تھا کہ تعین کیا جا سکے کہ ہوا کو کس قدر صاف کیا جائے کہ اس کی نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانا ممکن ہو جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ جو ماڈل ہم نے تخلیق کیا ہے، اس کی مدد سے صحت عامہ کے شعبے میں بہتری کے لیے ایک کامیاب حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے۔“



کالم



دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ


میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا…

اوساکا۔ایکسپو

میرے سامنے لکڑی کا ایک طویل رِنگ تھا اور لوگ اس…

سعودی پاکستان معاہدہ

اسرائیل نے 9 ستمبر 2025ء کو دوحہ پر حملہ کر دیا‘…

’’ بکھری ہے میری داستان ‘‘

’’بکھری ہے میری داستان‘‘ محمد اظہارالحق کی…

ایس 400

پاکستان نے 10مئی کی صبح بھارت پر حملہ شروع کیا‘…

سات مئی

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے وزیر خارجہ اسحاق…

مئی 2025ء

بھارت نے 26فروری2019ء کی صبح ساڑھے تین بجے بالاکوٹ…

1984ء

یہ کہانی سات جون 1981ء کو شروع ہوئی لیکن ہمیں اسے…

احسن اقبال کر سکتے ہیں

ڈاکٹر آصف علی کا تعلق چکوال سے تھا‘ انہوں نے…

رونقوں کا ڈھیر

ریستوران میں صبح کے وقت بہت رش تھا‘ لوگ ناشتہ…

انسان بیج ہوتے ہیں

بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…