اسلام آباد(آن لائن) ایف بی آر کسٹمز ڈیپارٹمنٹ کے گودام سے کروڑوں روپے کی غیر ملکی کرنسی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ادارہ نے اپنے سر سے اتارانے کے لئے ایک ریٹایئرڈ انسپکٹر کے خلاف کمزور دفعہ کے ساتھ مقدمہ در ج کروا کے معاملہ سر سے اتار دیا۔چیئرمین ایف بی آر سمیت دیگر اعلی عہدوں پر فائز آفیسران میگا کرپشن سے بلکل ناواقف نکلے۔ پولیس نے مقدمہ کی پیروی نہ ہونے پر کروڑوں روپے کی چوری کے مقدمہ کو نچلی الماریوں میں دبا دیا۔
تفصیلات کے مطابق کسٹمز سٹیٹ ہاوس ویلیوایبلز کے گودام سے کروڑوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ کسٹمز ایکٹ 1969ء کے تحت پکڑی جانے والے اور ضبط شدہ قیمتی اشیاء بشمول غیر ملکی کرنسی، سونا، منشیات وغیر کسٹمز سٹیٹ ہاوس ویلیوایبلز کے گودام میں جمع کی جاتی ہیں۔اگست 2019 کو علامہ اقبال ائیرپورٹ ایم سی سی نے جب یہ فیصلہ کیا کہ جمع شدہ سامان جو کہ ویلیو ایبلز گودام میں پڑا ہوا ہے ایم سی سی علامہ اقبال ائیرپورٹ کی تحویل میں دے دیا جائے۔ اس کے علاوہ جو ملکی اور غیر ملکی کرنسی اور سونا کو کہ ویلیو ایبلز گودام میں پڑا ہوا ہے ان کو CGO12/2002 میں دئیے گئے طریقہ کار کے تحت سٹیٹ بینک آف پاکستان اور پاکستان منت میں جمع کروا دیا جائے جسکے لیے محکمہ نے شاہد نسیم جوئیہ سپرڈنٹ، راشد حفیظ انسپکٹر کسٹمز، خالد پرویز بھٹہ انسپکٹر کسٹمز اور دیگر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ کمیٹی کو گودام کی جانچ پڑتال کے بعد معلوم ہوا کہ ملکی اور غیر ملکی کرنسی ویلیو ایبلز گودام کسٹم ہاؤس لاہور سے غائب ہے۔ غائب شدہ کرنسی کے حوالے سے متعلقہ گودام کے زمہ داروں کے پاس کمیٹی کو وضاحت پیش کرنے کے لیے کوئی جواب نہ تھا۔کسٹمز کے گودام سے غائب شدہ ملکی اور غیر ملکی کرنسی جس میں پانچ لاکھ 30 ہزار اماراتی درہم، دو ہزار آسٹریلوی ڈالر، تین لاکھ سترہ ہزار امریکی ڈالر، ایک لاکھ 46 ہزار کورئین وان، دو لاکھ سعودی ریال، ایک لاکھ سولہ ہزار یورو، انتالیس ہزار برطانوی پاؤنڈ، تین لاکھ اسی ہزار چائنہ یان،
چالیس ہزار جاپانی یان، اسی ہزار ملائشیا رنگٹ، پچیس ہزار امانی ریال، اسی سوڈانی پونڈ، تیرہ لاکھ پاکستانی روپے، بیس لاکھ پاکستانی بینک ڈرافف، پانچ سنگا پور ڈالر اور بڑے پیمانے پر پاکستانی بانڈز بھی شامل تھے۔ غیر ملکی کرنسی کی پاکستانی روپے کے مطابق 84 کروڑ سے زائد کی رقم بنتی ہے۔ معاملہ کی جانچ ہڑتال کے کئے ویلیو ایبلز گودام لاہور کے موجودہ انچارج خالد پرویز بھٹہ انسپکٹر کسٹمز اور گزشتہ انچارج محمد یوسف خان سپریڈنڈنٹ کسٹمز (ریٹائیرڈ) سے اس حوالے سے وضاحت بھی طلب کی گئی مگر بظاہر خورد برد ہونے والی کرنسی کی بابت اپنے کردار کی وضاحت نہ کرسکے۔ ابتدائی پولیس رپورٹ کے مطابق موجودہ انچارج گودام خالد پرویز بھٹہ انسپکٹر کسٹمز اور سابق انچارج محمد یوسف خان سپریڈنڈنٹ کسٹمز (ر) اس خرد برد میں ملوث پائے گئے ہیں۔ مگر کمزور دفعہ409 جو کہ قابل ضمانت ہے اس کی وجہ سے کیس کمزور ہے۔
حکومتی خزانے میں بڑے پیمانے پر خورد رد اور کرپشن کرنے والے آفیسر ان کے کیے یہ دفعہ ہونے کی وجہ سے میگا کرپشن والا معاملہ دب گیا ہے۔محکمہ ایف بی آر کے کسٹمز سٹیٹ ہاوس ویلیوایبلز کے گودام کے زمہ داران نے اپنے سر سے اتارانے کے لئے ایک ریٹایئرڈ انسپکٹر کے خلاف کمزور دفعہ کے ساتھ مقدمہ در ج کروا کے معاملہ سر سے اتار نے کی کوشش کی گئی ۔چیئرمین ایف بی آر سمیت دیگر اعلی عہدوں پر فائز آفیسران اس ملکی اور غیر ملکی کرنسی کی چوری کے حوالے سے بلکل ناواقف ہیں جبکہ مبینہ طور پر کسٹمز کے چند آفیسران کی ملی بھگت سے محکمہ کے اندر اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں گزشتہ چار سال کے دوران اسطرح کی پانچ بڑی چوری کی واردزتیں ہوچکی ہیں محکمہ کے اعلی حکام کی لاعلمی اور عدم توجہ کے باعث اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کرپٹ عناصر کی حوصلہ افزائی ہوئی رہی اور حکومتی خزانے مزید بوجھ بن رہا ہے۔اس اہم مقدمہ کی پیروی نہ ہونے پر کروڑوں روپے کی چوری کے مقدمہ کو نچلی الماریوں میں دبا دیا گیا ہے۔