اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چوہدری اپنے کالم ’’ہم اگر آج بھی نہیں جاگتے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔آپ کسی دن جیب میں ٹیپ ریکارڈر رکھیں‘ سارا دن اپنی گفتگو ریکارڈ کریں اور رات کو سنیں آپ کو اپنا آپ بھی برا لگے گا لہٰذا ہمیں ماننا ہوگا ہم اوپر سے لے کر نیچے تک ایک بیمار قوم ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص کوئی نہ کوئی دوا کھا رہا ہے‘ آپ کو ہر گھر میں دوائی بھی ملے گی اور آپ لوگوں کو رات کے
وقت ادویات کے لفافے لے کر گھر جاتے بھی دیکھیں گے‘ آپ کو ڈاکٹر بھی ادویات کھاتے نظر آئیں گے اور ان سب سے بڑھ کر آپ کسی دن اپنے ہیروز کے بارے میں بھی ریسرچ کر لیں‘ آپ یہ جان کر حیران رہ جایں گے ہمارے سارے ہیروز لڑنے والے ہیں‘ یہ غازی ہیں یا پھر شہید ہیں۔ ہم نے آج تک کسی ادیب‘ شاعر‘ مفکر‘ سائنس دان‘ سوشل ورکر‘ استاد‘ موسیقار‘ فلم ساز اور بزنس مین کو ہیرو نہیں بننے دیا‘ یہ لوگ ایک حد سے آگے نہیں جا سکتے‘ اس حد سے آگے صرف اور صرف لڑنے‘ مرنے اور مارنے والے جاتے ہیں چناں چہ غلط عادتوں‘ رویوں اور خرابیوں کے ساتھ ساتھ ذوق لڑائی بھی ہماری سوچ‘ ہماری فکر کا حصہ بن چکا ہے لہٰذا ہم ذہنی‘ جسمانی اور روحانی تینوں سطحوں پر بیمار قوم بن چکے ہیں اور یہ بیماری ایوان صدر سے لے کر بشیرے کے کھوکھے تک کامن ہے‘ بشیرا بھی بیمار ہے اور ایوان صدر بھی۔ہمارے ملک میں اگر کوئی پالیسی ساز‘ اگر کوئی منصوبہ ساز ہے تو پھر اسے ہسپتال پر وکلاءکے حملے کو نان سیریس نہیں لینا چاہیے‘ یہ واقعہ ہماری قومی سوچ‘ ہمارے مجموعی رویوں کا اظہار ہے‘ ہم من حیث القوم ایسے ہی ہیں‘ آپ کو یقین نہ آئے تو آپ مسجدوں کا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو نمازی وضو خانوں سے لے کر صفوں تک لڑتے نظر آئیں گے‘ ملک میں رمضان کے ہر دن لڑائی ہوتی ہے‘ حکومت چند سال پہلے تک محرم اور بارہ ربیع الاول کے
جلوسوں کی نگرانی پولیس کے حوالے کرتی تھی لیکن ہم اب اپنے شہروں میں فوج تعینات کرتے ہیں۔آپ کو سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی طالب علم ایک دوسرے سے لڑتے اور فائرنگ کرتے ملتے ہیں‘ بیٹے کے ہاتھوں باپ کی موت اور باپ کے ہاتھوں بچوں کا قتل بھی عام ہو چکا ہے‘ مائیں بھی اپنے سارے بچوں کے ساتھ خودکشی کر لیتی ہیں‘ وکیل مکوں‘ ٹھڈوں اور گالیوں کے ذریعے
دلائل دیتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑ جائے یہ جج صاحب کو قائل کرنے کے لیے اسے پھینٹا بھی لگا دیتے ہیں‘ ہڑتالیں اور سڑکوں کی بندش بھی ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے ۔ہمارے ڈاکٹر بھی معمولی معمولی باتوں پر ایمرجنسی‘ آپریشن تھیٹر اور مریض چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور لواحقین بھی ڈاکٹروں پر پستول تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘کیا یہ رویے نارمل ہیں؟ جی نہیں!‘
ہم لوگ واقعی ابنارمل ہو چکے ہیں اورپی آئی سی کا واقعہ اس ابنارمیلٹی‘ اس قومی بیماری کی علامت ہے ‘ انسان کی فطرت ہے یہ جب ڈپریشن اور غصے کی انتہاکو چھوتا ہے تو یہ اپنے آپ کو آگ لگا لیتا ہے‘ یہ اپنے گھر‘ اپنی دکان اور اپنی گاڑی کو بھی تباہ کر دیتا ہے اور ہمیں ماننا ہوگا ہم غصے اور ڈپریشن کی اس حد سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ہم مسجدوں‘ امام بارگاہوں اور قبرستانوں پر حملے کرتے کرتے
اب ہسپتالوں تک پہنچ گئے ہیں‘ اس سے اگلی سٹیج مسافروں سمیت ٹرینوں اور بسوں کو آگ لگانا اور بچوں کو کلاس رومز میں بند کر کے سکولوں کو نذر آتش کر دینا ہے چناں چہ ہمیں جاگنا ہوگا‘ حکومت کو اب کوئی نہ کوئی معاشرتی پالیسی بنانا ہو گی‘ ہمیں خوراک‘ پانی‘ ہوا‘ بجلی‘ گیس‘ روزگار‘ تعلیم‘ صحت‘ انصاف اور لوگوں کی عزت کے پیرا میٹرز طے کرنا ہوں گے‘ ہمیں قوم سازی کا کام شروع کرنا ہوگا
ورنہ دوسری صورت میں اس ملک کے کتے بھی دوسرے کتوں سے کہتے نظر آئیں گے آؤ بھاگ چلتے ہیں ورنہ ہم بھی انسانوں کی موت مارے جائیں گے۔ہم اگر آج بھی نہیں جاگتے‘ ہم اگر آج بھی قوم کو قوم نہیں بناتے تو پھر لکھ لیجیے یہ ملک اگلی نسل نہیں دیکھ سکے گا‘ ہم میں سے آدھے آدھوں کو مار دیں گے اور جو باقی بچ جائیں گے وہ خودکشی کرلیں گے اور بات ختم چناں چہ ہمیں قدرت کی وِسل سننا ہو گی‘ ہمیں اب جاگنا ہو گا‘ اس سے پہلے کہ قدرت ہم سے مکمل مایوس ہو جائے ۔