لندن(نیوز ڈیسک)ایک برطانوی کمپنی نے انٹرنیٹ پر روایتی طور پر استعمال کیے جانے والے پن کوڈ کی جگہ ایموجیز کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کیا ہے۔برطانوی کمپنی انٹیلیجنٹ انوائرنمنٹ کا کہنا ہے کہ ایموجیز یعنی مختلف کام، لمحات اور جذبات کی عکاسی کرنے والی تصاویر زیادہ محفوظ ہیں۔خیال رہے کہ انٹرنیٹ پر پن کوڈ کا استعمال عام طور سے آن لائن بینکنگ میں ہوتا ہے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ روایتی صفر سے 10 نمبر کے مقابلے 44 ایموجیز کے زیادہ کومبینیشن یا الحاق ہو سکتے ہیں۔کمپنی کا دعویٰ ہے کہ کئی ڈیجیٹل بینکوں نے ان کے اس خیال اور تصور میں دلچسپی دکھائی ہے۔یادداشت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں کے لیے تصاویرکا یاد رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔انٹیلیجنٹ انوارنمنٹ کمپنی کے ڈائرکٹر ڈیوڈ ویبر کہتے ہیں کہ یہ نظام 15 سے25 سال کے لوگوں کے لیے تیارکیا گیا تھا۔یادداشت کے ماہر کا کہنا ہے انسان تصاویر کو یاد رکھنے کے لیے زیادہ اچھی طرح تیار کیا گیا ہے،انھوں نے کہا کہ ’مالی ادارے تفریحات اور نئی سہولیات سے علیحدہ کیوں رہیں۔ یہ لاگنگ کرنے کا صرف ایک دوسرا طریقہ ہے۔‘ڈیوڈ ویبر نے کہا کہ ان کی کمپنی نے اس تصور کو پیٹینٹ نہیں کرایا ہے یعنی اس کا جملہ حقوق محفوظ نہیں کرایا ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’میرے خیال میں یہ پیٹینٹ کرائے جانے لائق نہیں لیکن میرے خیال سے ہم لوگ پہلے ہیں جنھوں نے اس بارے میں سوچا۔‘سائبر سکیورٹی کے ماہر پروفیسر ایلن وڈوارڈ نے کہا کہ اعدادو و حروف کی گنجلک ترتیب کے مقابلے پیٹرنز اور تصاویر کا استعمال پہلے سے ہی کسی کسی کمپنی میں مفید متبادل کے طور پر رائج ہے۔انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال سے یہ دلچسپ اور مبارک قدم ہے۔ اگر ہم پاس ورڈ کے استعمال کو جاری رکھتے ہیں اور یہ ایک عرصے تک رائج رہنے والا ہے تو ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ انسان کس طرح سوچتے ہیں اور انھیں جہاں تک ممکن ہو یاد رکھنے کے لیے آسان بنایا جائے۔‘مسٹر ٹیپر نے کہا کہ اس تصور کی سب سے بڑی کمی انسانی رویہ ہے اور ’میرے خیال میں اس کے لیے انسانی برتاؤ کی سخت جانچ زیادہ ضروری ہے‘یادداشت کے سابق چیمپیئن مائیکل ٹیپر نے بی بی سی کو بتایا کہ کسی نمبر یا تصویر کی ترتیب کو یاد رکھنے کا طریقہ ایک ہی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر ہم تصاویر کو یاد رکھنے کے لیے بہتر طور سے تیار کیے گئے ہیں۔ تاہم انسان سست واقع ہوا ہے اور ہے آسان طریقے کو پسند کرتا ہے۔‘’اعدادوشمار کی رو سے اس کا توڑ پانا زیادہ مشکل ہوگا لیکن جب آپ کے سامنے سکرین پر ایموجیز پیش کیا جائے گا تو آپ ایسی ترتیب یاد رکھنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے جسے آپ منتخب کرنے جا رہے ہیں اور آپ چاروں کونوں یا پھر اوپر کی قطار میں موجود ایموجیز کو منتخب کریں گے اور یہ اسی قدر غیر محفوظ ہوگا جیسے کہ اعدادوالفاظ کی ترتیب ہوتی ہے۔‘ڈیوڈ ٹیپر نے کہا کہ اس تصور کی سب سے بڑی کمی انسانی رویہ ہے اور ’میرے خیال میں اس کے لیے انسانی برتاؤ کی سخت جانچ زیادہ ضروری ہے۔‘
برطانوی کمپنی نے انٹرنیٹ پرپن کوڈ کے لیے اعداد و حروف کی جگہ ایموجیز متعارف کرا دئیے
15
جون 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں