ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور انہوں نے مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر کیا الفاظ کہے تھے ؟مودی کا جو یار ہے وہ غدار ہے ، یہ نعرہ نواز شریف کیساتھ کب ، کیوں اور کیسے جڑگیا ؟ اندرونی کہانی کھل کر سامنے آگئی

datetime 26  ‬‮نومبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار الطاف حسین قریشی اپنے کالم ’’پھر تیرا وقت ِسفر یاد آیا‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔2013ء میں نوازشریف تیسری بار وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔ اُن کی حکومت جس تیزی سے سی پیک کے منصوبوں پر عمل پیرا تھی اور ساتھ ہی ساتھ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں تھی، اس نے حریف سیاسی جماعتوں میں تشویش پیدا کر دی ۔ ذاتی تعلقات کی بنیاد پر

نریندر مودی اُن کی نواسی کی شادی میں خود چل کر جاتی امرا آئے۔ اِس سے پہلے جنوری 1999ء میں وزیراعظم واجپائی دوستی بس کے ذریعے لاہور آئے تھے اور اُنہوں نے مینارِ پاکستان پر پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے احترام کا اعلان کیا تھا۔ تب ہی مختلف ایشوز سامنے آنے لگے اور نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے یہ نعرہ گونجنے لگا ’مودی کا جو یار ہے، پاکستان کا غدار ہے‘۔ پھر یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ شریف برادران ملک لُوٹ کر کھا گئے ہیں۔ اِسی دوران پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا اور عدالتِ عظمیٰ نے اُنہیں پاناما کے بجائے اقامہ پر عمر بھر کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ احتساب عدالت نے اُن کی غیر موجودگی میں سات سال کی سزا سنا دی۔ وہ اُس وقت اپنی بیٹی مریم کے ساتھ لندن میں تھے جہاں اُن کی اہلیہ کلثوم نواز بسترِ مرگ پر تھیں۔ سزا کی خبر سن لینے کے بعد وہ دونوں باپ بیٹی سزا بھگتنے کے لیے لاہور چلے آئے اور پھر جیل سے اُنہیں گرفتار کرکے نیب اپنے عقوبت خانے میں لے آیا جہاں اُن پر کئی بیماریوں نے یلغار کر دی۔ سرکاری ڈاکٹروں کے مختلف بورڈز نے بار بار رپورٹ دی کہ اُنہیں علاج کے لیے ملک سے باہر بھیجنا ضروری ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی بیماری کی شدت کا پورا اِحساس ہو گیا اور اُنہوں نے باہر جانے کی اجازت بھی دے دی مگر اُن کے بعض مشیروں نے سات ارب روپے کا بانڈ بھرنے کی شرط لگا دی۔ مرض کی سنگینی کے باعث

مریض کے خاندان پر ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ تاہم انہیں جانے کی اجازت دے دی گئی۔ نواز شریف کے وقتِ سفر کے مناظر اب آنکھوں میں سما گئے ہیں اور مخالفوںنے جو انسان دشمن روش اپنائی ہے، اس پر افسوس ہی کیا جاسکتاہے۔اب مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ نے ہوا کا رخ تبدیل کر دیا ہے اور اِقتدار کے پتے ایک ایک کر کے جھڑتے محسوس ہورہے ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان نے طیش میں آکر جو تقریر کی ہے، اس نےبڑے گہرے زخم لگائے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…