اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار اظہار الحق اپنے کالم ’’یہ ملک فارغ ہو جائے؟؟میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔ ہاں!آپ کہہ سکتے ہیں ملک کو فارغ کرو! اس لئے کہ آپ کی اس ملک کے ساتھ جذباتی‘ قلبی‘ آبائی‘ خونی وابستگی نہیں ہے! آپ کے اکابر نے اس ملک کی مخالفت کی تھی! آپ کے والد محترم نے فرمایا تھا کہ وہ یہ ملک بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ آپ نے آج تک تحریک پاکستان کی حمایت میں
ایک لفظ نہیں ارشاد فرمایا! ہاں! آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کو فارغ کرو! مگر جن کے ماں باپ ان کی آنکھوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔ جن کے بچے بھالوں پر اچھالے گئے۔ جن کی خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں۔ جن کے گھر بارجائیدادیں باغات کھیت وہیں رہ گئے‘ جو بیل گاڑیوں پر اور لاشوں سے اٹی ٹرینوں پر اور پیدل‘ اپنے آپ کو گھسیٹتے ‘ پاکستان میں پہنچے وہ پاکستان کو فارغ کیسے کر سکتے ہیں! آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کو فارغ کرو۔ مگر وہ لیاقت علی خان جو گولی کھا کر شہید ہوا۔ جس کی جیب سے چند سکوں کے سوا کچھ نہ نکلا جس کی بیوہ کے پاس اپنا مکان تک نہ تھا۔ وہ لیاقت علی خان اس ملک کو کیسے فارغ کر سکتا تھا! میرے منہ میں خاک! آپ اس ملک کو فارغ کرنے کا کہہ سکتے ہیں مگر وہ قائد اعظم جس نے کروڑوں کے محلات چھوڑے۔ ایک دھیلا بھی نہ کلیم کیا۔ جس نے بسترمرگ پر لیٹ کر بھی باورچی واپس بھجوا دیے۔ جو بیت المال سے اپنی ذات پر پانی تک خرچ نہ کرتا تھا۔ جس نے بیمار پھیپھڑوں کے ساتھ اس ملک کو ہندو عفریت سے نجات دلوائی۔ وہ قائد اعظم ‘ اس ملک کو فارغ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا! آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کو فارغ کرو! آپ اس حقارت کو گواہ بنا کر ایسا کہہ سکتے ہیں جو ایسا کہتے وقت آپ کے چہرے پر صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ اس لئے کہ آپ نے اس ملک سے جس کے بنانے کے گناہ میں آپ کے بزرگ شامل نہ تھے۔ خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا
جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘ آپ سالہا سال ‘ وفاقی وزیر کی مراعات اس ملک سے وصول کرتے رہے۔ اس ملک کے سرکاری محل میں برسوں ٹھاٹھ سے رہتے رہے۔ آپ کا بھائی کہاں سے چلا اور مقابلے کا امتحان دیے بغیر پاس کئے بغیر‘ اس ملک میں ڈپٹی کمشنر بن گیا۔ آپ کے سارے بھائی اس ملک سے فائدے پر فائدہ اٹھاتے رہے۔ اس ملک نے آپ کو کیا نہیں دیا۔ آپ کا فرزند بھی
اسی ملک کی پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔ ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کو فارغ کرو! آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کو فارغ کرو اس لئے کہ آپ کی خدمت میں ایک نہیں کئی متبادل حاضر ہیں۔ آپ نے بھارت جا کر کہا تھا کہ ایک گول میز کانفرنس بلا کر پاک بھارت سرحد ختم کی جا سکتی ہے، آپ کو بھارت بھی خوش آمدید کہے گا۔آپ کے دست راست محمود اچکزئی ہیں۔ جن کے تعلقات افغانستان سے
سب کو معلوم ہیں اور جس کی تفصیلات انٹرنیٹ پر کئی حوالوں سے موجود ہیں۔ آپ کو افغانستان میں بھی سرآنکھوں پر بٹھایا جائے گا مگر حضور والا! ہماری تو پاکستان کے علاوہ کہیں اور جائے پناہ نہیں! ہمارے لئے تو پاکستان ہی سب کچھ ہے ! ہمارا تو اوڑھنا بھی پاکستان ہے اور بچھونا بھی پاکستان ہے۔ ہم تو اس پاکستان کی ہوا‘ چاندنی اور دھوپ کے احسان مند ہیں۔ ہمارے لئے تو اس پاکستان کی
مٹی مقدس ہے! ہم تو یہ کہنے سے پہلے کہ ۔ اس ملک کو فارغ کرو۔ ’’زمین میں گڑجانا پسند کریں گے۔ ہمارا تو اس ملک کے علاوہ کوئی سہارا ہے نہ آسرا۔ ہمارے تو جسم کا ایک ایک روأں ‘ ایک ایک مسام‘ ہماری تو انگلیوں کی ایک ایک پور‘ ہماری ہڈیاں‘ ہماری ہڈیوں کے اندر پڑا ہوا گودا‘ ہمارے خون کا ایک ایک ذرہ ہماری رگیں‘ ہماری وریدیں‘ اس ملک پر قربان؟ آج ہم اس ملک کی وجہ سے
دنیا میں سر اٹھا کر چل سکتے ہیں! ہم کسی مودی‘ کسی جسونت سنگھ کسی ادیتا ناتھ کسی پراگیا ٹھاکر کے محتاج نہیں‘ ہمیں گائے فروخت کرنے کی وجہ سے کوئی قتل نہیں کر سکتا! گوشت کھانے کی وجہ سے ہمارا گھر کوئی نہیں جلا سکتا۔ ہمارے چہرے نہ بگڑ جائیں اگر خدانخواستہ ہم کہیں کہ فارغ کرو اس ملک کو؟ ہمیں معلوم ہے احسان جعفری کے ساتھ گجرات میں کیا ہوا تھا۔ پہلے اس کے بازو کاٹے گئے۔
پھر ٹانگیں ‘ پھر سر! پھر اس کا گھر جلایا گیا۔ پھر وہ سب مسلمان شہید کر دیے گئے جو اس کے گھر میں پناہ لئے ہوئے تھے۔ احسان جعفری‘ آسمانوں سے ہمیں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ پاکستان تمہارے لئے جنت ہے!تم خوش بخت ہو! ہم نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کو فارغ کرو!ہمیں معلوم ہے فاروق عبداللہ جیسے کٹر بھارتی نے تسلیم کر لیا ہے کہ قائد اعظم نے درست کہا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کو
فارغ کرو۔ اس لئے کہ آپ نے آج تک نہیں تسلیم کیا کہ قائد اعظم نے ہندو ذہنیت کے بارے میں جو کچھ کہا تھا۔ آج ہر نیا دن ہر گزرتا لمحہ اسے زیادہ بڑا سچ ثابت کر رہاہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کو فارغ کرو۔ اس لئے کہ آپ کی جمعیت علماء ہند کے (جس میں آپ کے اکابر شامل تھے اور جس نے کانگرس کی حمایت کی تھی) سربراہ مولانا محمود مدنی نے یہ کہتے وقت کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔
یہ بھی فخر سے بتایا ہے کہ ان کی جماعت (جمعیت علماء ہند )نے ماضی میں بھی بھارت ہی کا ساتھ دیا تھا!! ہاں!آپ کہہ سکتے ہیں کہ فارغ کرو اس ملک کو ۔ اس لئے کہ اس عورت نے بھی کہہ دیا تھا کہ بچے کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دو جو عدالت میں گئی تھی یہ دعویٰ لے کر بچہ اس کا ہے۔دوسری عورت مدعی تھی کہ بچہ ان کا ہے۔ جج سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اصل ماں کون ہے اور جعلی ماں کون!پھر جج نے فیصلہ کیا کہ
بچے کو کاٹ کر دونوں کو آدھا آدھا دے دو۔ اس پر جعلی ماں فوراً مان گئی اور اصل ماں تڑپ اٹھی کہ سارا بچہ جھوٹی دعویدار کو دے دو مگر میرے لعل کو دو ٹکڑے نہ کرو! ہاں! آپ بھی اس ملک کے ایسے ہی دعویدار ہیں! آپ ایک نشست سے کیا محروم ہوئے کہ ملک ہی کو فارغ کرنا چاہتے ہیں! خدا کے لئے ایسا نہ کہیے! آپ نے جو لینا ہے لے لیجیے۔ نشستیں ‘ وزارتیں‘ کمیٹیوں کی صدارتیں‘ سرکاری محلات‘
اپوزیشن لیڈری‘ ڈپٹی کمشنری سب کچھ لے لیجیے مگر خدا کے لئے اس ملک کی سلامتی کے درپے نہ ہوں! اس ملک کو فارغ کرنے کی بات نہ کیجیے۔ تُف ہے ریٹنگ کے بھوکے ان اینکروں پر اور تجزیہ کاروں پر جو یہ فقرہ ہنس ہنس کر دہرا رہے تھے۔ دھرتی کے یہ ناخلف بیٹے جنہیں یہ ماں دودھ نہیں بخشے گی۔
خاک چاٹیں گے۔ دھول کھائیں گے۔ خائب اور خاسر ہوں گے! اس ملک کو پہلے جس نے بھی نقصان پہنچایا‘ تختہ دار پر لٹکا‘ یا اپنے ہی حواریوں کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آئندہ بھی اس ملک کی حفاظت کرنے والا اس کے دشمنوں کو غارت کرے گا! یہ ملک فارغ نہیں ہو گا ہاں جو چاہتے ہیں کہ یہ فارغ ہو جائے۔ بہت جلد اپنا انجام دیکھ لیں گے۔