عبدالحکیم (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام پاکستان ( ف) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اب استعفیٰ دینے نہیں استعفیٰ لینے آرہے ہیں 31 ، اکتوبر کو تمام قافلے اسلام آباد میں داخل ہونگے ہم پر امن طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے ۔
امید ہے کہ نئے انتخابات ہو رہے ہیں ہم نے حلف برداری سے بھی اپنے دوستوں کو منع کیا تھا اب تو میاں محمد نواز شریف نے خود کہہ دیا ہے کہ ہم نے مولانا فضل الرحمن کی بات نہ مان کر غلطی کی انہوں نے کہا کہ ہمیں ن لیگ نے مارچ میں شمولیت کی یقین دہانی کرائی ہے اور میاں محمد نواز شریف نے بھی یقین دلایا ہے کہ انکی جماعت فضل الرحمن کے شانہ بشانہ چلے گی ۔آزادی مارچ میں جتنی پارٹیاں شریک ہوں گی ۔ہم انکے مشکور ہوں گے ۔مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی حکومتی کمیٹی نے بھی کچھ نہیں کیا اور اب دوسری کمیٹی بھی ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر گامزن ہے عمران خان اپوزیشن جماعتوں سے نہ ہی بات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ میں آنا چاہتے ہیں ہمارے وفد کا چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کا مقصد صرف عیادت کرنا ہے اسکو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے ایک طرف حکومت مذاکرات کی بات کرتی ہے دوسری طرف وزراء بے ہودہ غلیظ گفتگو گھٹیا سیاست اور الزامات بھی لگا کر دھمکیاں بھی لگا رہے ہیں اور مذاکرات کے دروازے بھی کھلے رکھے ہوئے ہیں حکومت کی دوغلی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے ہم نے جب سے سیاست میں قدم رکھا ہے ہم نے کبھی کسی کے بارے غلیظ زبان استعمال نہیں کی جو کھلاڑی بچپن میں کو کین استعمال کرتے ہیں وہ بڑھاپے میں ایسی گفتگو کرتے ہیں۔
آزادی مارچ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم اپنا ہوم ورک مکمل کر چکے ہیں ہم نے ایک سال میں ریکارڈ پندرہ ملین مارچ کرچکے ہیں اپوزیشن کی تمام جمہوریت پسند جماعتیں یک نکاتی ایجنڈا پر قائم اور ایک پیج پر ہیں کہ اب نا اہل ناجائز جعلی کٹھ پتلی دھاندلی زدہ حکومت سے چھٹکارے اور نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں حکومت جتنے مرضی حربے استعمال کر لے ہر حال میں آزادی مارچ ہوگا ۔احتجاج ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے عمران الیکشن میں اکیلے تھے ہمیں پتہ ہے کہ وہ اقتدار میں کیسے آئے ۔