اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور کالم نگار اعزا ز سید اپنے آج کے کالم ’’راج نیتی کے ماہر اورنیا چھانگا مانگا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ جنرل پرویز مشرف کے عروج کے دنوں کی بات ہے، جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل یا ایم ایم اے نے
اس وقت خیبر پختونخوا میں حکومت بنا رکھی تھی۔ظاہر ہے یہ حکومت پرویز مشرف کی مرضی سے ہی بنی تھی مگر پرویز مشرف اور ایم ایم اے میں نوک جھونک اور فرینڈلی فائرنگ بھی ہوتی رہتی تھی۔ مشرف روشن خیال اعتدال پسندی کے حامی تھے تو ایم ایم اے کے زعما اسلام کے داعی۔ 2005ء تک ایک وقت ایسا آیا کہ متحدہ مجلس عمل پرویز مشرف کے خلاف ایسے کھل کر میدان میں آئی کہ فوجی ڈکٹیٹر خود تلملا اٹھا۔ اس وقت کے آئی بی کے سربراہ کو طلب کرکے ایم ایم اے کا ’’بندوبست‘‘ کرنے کا حکم دیا گیا۔آئی بی نے ایک افسر کی ڈیوٹی لگائی، ہوم ورک کیا گیا اور اسی کی روشنی میں پارلیمنٹ لاجز میں ایک خاص قسم کی ایمبولینس کھڑی کروائی گئی۔بظاہر ایمبولینس دکھنے والی اس گاڑی میں دراصل خفیہ فلمبندی کرنے کا خصوصی نظام موجود تھا۔ ایک آپریشن کے ذریعے ایم ایم اے کے ایک سرکردہ رکن پارلیمنٹ کی پارلیمنٹ لاجز میں موجود سرکاری رہائشگاہ میں پہلے ہی خفیہ کیمرے نصب کیے جا چکے تھے۔جونہی ایم ایم اے کے مذکورہ رہنما و رکن پارلیمنٹ نے مبینہ طور پر اپنے تنہائی کے لمحات کو رنگین بنایا تو ساری رنگینی خفیہ کیمروں کے ذریعے ریکارڈ کر لی گئی۔مذکورہ رہنما کو اس کے مبینہ رنگین لمحات کی ریکارڈنگ کے بارے میں ایسے آگاہ کیا گیا کہ اس نے ایم ایم اے سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ کرتے بھی کیوں نا؟ آئی بی نے کام ہی ایسا کیا تھا کہ مذکورہ رہنما ان کی ہدایات پر عملدرآمد نہ کرتا تو اس کی فلم اس کے عوامی تاثر اور مستقبل دونوں کا تیا پانچا کر ڈالتی۔ ان دنوں راج نیتی کے سب ماہر پرویز مشرف کو سلام کرتے تھے، وقت بدلا تو وہ لوگ بھی بدل گئے نتیجتاً مشرف کو گھر جانا پڑا۔