ہفتہ‬‮ ، 20 دسمبر‬‮ 2025 

ستمبر 2018 میں پاکستان کا مجموعی قرضہ اور واجبات 300 کھرب روپے تھا جو کہ بڑھ کر اب کتنے کھرب ہوچکاہے؟چونکا دینے والے انکشافات

datetime 16  ستمبر‬‮  2019 |

اسلام آباد (این این آئی)2008 سے 2018 تک کے قرضوں کی تفصیلات انکوائری کمیشن کو مل گئیں جس کے مطابق جی ڈی پی میں 223 فیصد اور غیر ملکی قرضوں میں 106 فیصد جب کہ سرکاری قرضوں میں 307 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے تین ماہ قبل 2008 سے 2018 کے دوران لیے گئے قرضوں کی تحقیقات کے لیے 12 رکنی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2008 میں پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجبات 46 اعشاریہ 161 ارب ڈالرز تھے جو 2018 میں بڑھ کر 95 اعشاریہ 342ارب ڈالرز تک پہنچ گئے۔اعداد و شمار کے مطابق ان دس برس میں جی ڈی پی میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں ا?یا جو کہ 23759ارب روپے تھا۔2008 میں جی ڈی پی 10637 ارب روپے تھا جو کہ بڑھ کر 2018 میں 34396 ارب روپے ہوگیا، یعنی 2008 سے 2018کے دوران جی ڈی پی میں 223 اعشاریہ 36 فیصد اضافہ ہوا۔پچھلی حکومت نے جب اپنی مدت پوری کی تھی تو شرح نمو 5 اعشاریہ 8 فیصد تھی۔ 2008 میں ایک ڈالر 68 اعشاریہ 3 روپے کا تھا جب کہ اب ایک ڈالر 156 اعشاریہ 6 روپے کا ہے۔ستمبر 2018 میں پاکستان کا مجموعی قرضہ اور واجبات 300 کھرب روپے تھا جو کہ بڑھ کر 400 کھرب روپے ہوچکا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے وضاحت کی ہے کہ بیرونی واجبات میں مرکزی بینک ڈپوزٹس، سواپس، ایس ڈی آر اور مرکزی بینک میں ڈپوزٹ مقامی کرنسی شامل ہیں۔ اجناس آپریشنز میں صوبائی حکومتوں کے بینکوں سے لیے گئے قرضے اور اس مقصد کے لیے پی ایس ایز شامل ہیں۔اسٹیٹ بینک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مالی ذمہ داری اور قرضہ حدود ایکٹ 2005، جس میں 2017میں ترمیم کی گئی۔حکومت کے مجموعی قرضوں کا مطلب وہ حکومتی قرضے (اس میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں شامل ہیں) جو کہ مستحکم فنڈز کی خدمات سے باہر ہیاور ائی ایم ایف سے لیے گئے قرضے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بینکاری نظام میں جمع کردہ ڈپوزٹ سے کم ہوں۔

حالیہ اعدادوشمار کے مطابق قرضوں سے جی ڈی پی شرح اب ستمبر 2018 کی 80 فیصد سے بڑھ کر 104 فیصد ہوچکی ہے۔ انکوائری کمیشن کے سربراہ نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر ہیں، وہ خیبر پختونخوا حکومت کے تقریباً 40کروڑ ڈالرز قرضوں کی بھی تحقیقات کررہے ہیں جو پشاور میٹروکی تعمیر کے لیے لیا گیا تھا جب کہ اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور ملتان میٹرو سسٹم، کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتے کیوں کہ پنجاب حکومت نے ان پر اپنے وسائل سے پیسہ خرچ کیا تھا۔پی ایس ایز کا قرضہ اب جی ڈی پی کے 5 اعشاریہ 5 فیصد تک پہنچ چکا ہے

جب کہ ستمبر 2018 میں یہ جی ڈی پی کا 3 اعشاریہ 5 فیصد تھا۔گزشتہ دو حکومتوں کی جانب سے لیے گئے قرضے ان کے استعمال اور اجراء کی تفصیلات اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں۔ انکوائری کمیشن کا قیام 22 جون کو عمل میں آیا تھا اور اسے چھ ماہ کے اندر اپنی رپورٹ مکمل کرنے کا کہا گیا تھا۔ اسے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ سرکاری یا نجی شعبے سے، مقامی یا غیر ملکی شخص کو بطور رکن، کنسلٹنٹ یا مشیر یا معاون کے طور پر شامل کرسکتا ہے۔عمر حمید کو کمیشن کا رکن/سیکریٹری تعینات کیا گیا تھا وہ اقتصادی امور ڈویژن کے تین سال سے زائد مدت کے لیے ایڈیشنل سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری رہ چکے ہیں جبکہ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے زیادہ تر غیر ملکی قرضوں پر مذاکرات کیے تھے اور اب ان کی جانچ پڑتال ہورہی ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جو نہیں آتا اس کی قدر


’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ…

ویل ڈن شہباز شریف

بارہ دسمبر جمعہ کے دن ترکمانستان کے دارالحکومت…

اسے بھی اٹھا لیں

یہ 18 اکتوبر2020ء کی بات ہے‘ مریم نواز اور کیپٹن…

جج کا بیٹا

اسلام آباد میں یکم دسمبر کی رات ایک انتہائی دل…

عمران خان اور گاماں پہلوان

گاماں پہلوان پنجاب کا ایک لیجنڈری کردار تھا‘…

نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات

میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…