واشنگٹن (این این آئی)فلسطینی نژاد امریکی قانون ساز راشدہ طلیب نے اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اہلخانہ سے ملاقات کی مشروط اجازت کو’ ’جبر‘‘ قرار دے کر ٹھکرادیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل نے تل ابیب مخالف بیان دینے پر امریکی کانگریس کی مسلمان خواتین پر اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگادی تھی، تاہم بعد ازاں اسرائیل نے
ایک امریکی خاتون قانون ساز راشدہ طلیب کو انسانی بنیادوں پر مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد اپنے اہلخانہ بالخصوص دادی سے ملاقات کی اجازت دی تھی۔تاہم تل ابیب نے راشدہ طلیب پر شرط عائد کی تھی کہ وہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم کو فروغ نہیں دیں گی۔بعدازاں اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ راشدہ طلیب نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا کہ وہ ہر قسم کی پابندیوں کا احترام کریں گی اور اپنے دورے کے دوران اسرائیل کے بائیکاٹ کو فروغ نہیں دیں گی۔خیال رہے کہ اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ پر امریکی کانگریس کی مسلمان خواتین پر اپنے ملک میں داخلے پر پابندی لگائی تھی۔تاہم اس تمام معاملے پر اسرائیل کی جانب سے مشروط اجازت ملنے کے چند گھنٹوں بعد ہی راشدہ طلیب نے تل ابیب کی مشروط پیشکش مسترد کردی۔راشدہ طلیب نے متعدد ٹوئٹس کیں اور وضاحت دی کہ انہوں نے اسرائیلی ظلم و ستم کے سائے میں ملنے والی مشروط اجازت سے کیوں انکار کیا۔انہوں کہا کہ فلسطین میں اسرائیلی ظلم وجبر کے نظام میں اہلخانہ سے ’مشروط ملاقات نسل پرستی، جبر اور ناانصافی کے خلاف ان کے یقین کو توڑ دے گی۔راشدہ طلیب کا کہنا تھا کہ جب میں کانگریس کا حصہ بنی تو فلسطینیوں میں امید کی کرن جاگی کہ کوئی تو اسرائیل کے غیر انسانی سلوک کے بارے میں حقائق پر آواز اٹھائے گا۔واضح رہے کہ 43 سالہ راشد طلیب رواں برس جنوری میں امریکی کانگریس کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کو اجازت نہیں دے سکتیں کہ وہ اہلخانہ سے ملاقات کے بدلے ان کی توہین کرے اور ان کا سر اسرائیلی جبر اور نسل پرستانہ سیاست کے آگے جھک جائے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کی دادی نہیں چاہتیں کہ اسرائیل ان کی آواز کو خاموش کردے اور ان کے ساتھ مجرم جیسا سلوک برتا جائے۔