سرینگر(این این آئی)مقبوضہ کشمیرمیں مشترکہ حریت فورم نے سول سوسائٹی اور وکلاء، صحافیوں، تاجروں، ٹرانسپورٹروں اور ملازمین کی انجمنوں کے اشتراک سے کشمیری قوم، وادی کشمیر، جموں اور کرگل کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سڑکوں پر نکل کر اپنے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے لیے آواز بلند کریں۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق فورم نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کشمیری عوام پر زوردیا کہ
وہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل اور متنازعہ علاقے کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی بھارت کی مذموم کارروائی کے خلاف احتجاج کریں۔بیان میں کہا گیا کہ مظاہروں کی کال کشمیریوں کی خواہشات کے احترام میں دی گئی ہے۔ حریت فورم نے کہاکہ کشمیری قوم انتہا پسند ہندؤں کی سازشوں کو ہرگز قبول نہیں کرے گی اور ہندو بنیاد پرستوں کو اپنے وطن میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔ فورم نے اپنے بیان میں مزیدکہاکہ کشمیری شہداء کی قربانیوں کے ساتھ غداری نہیں کی جائے گی اورکشمیری عوام اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو ہندو انتہا پسندوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشترکہ حریت فورم نے کشمیری عوام سے اپیل کی کہ وہ کرفیو اور دیگر پابندیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں۔ بیان میں کہا گہاکہ جموں وکشمیر کشمیریوں کی سرزمین ہے جو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ مشترکہ فورم نے مزید کہا کہ کشمیری بھارتی قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے چاہے اسکا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ دریں اثنا انتظامیہ نے دفعہ 370کی منسوخی اور مقبوضہ علاقے کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کے بھارتی اقدام کے خلاف احتجاج مظاہروں کو روکنے کیلئے جمعہ کو بارھویں روز بھی پوری مقبوضہ وادی میں سخت کرفیو اور دیگر پابندیوں کا نفاذ برقرار رکھا۔لوگوں کو گھروں میں محصور رکھنے کیلئے وادی کے اطراف و اکناف میں ہزاروں بھارتی فوجی تعینات ہیں،
انٹرنیٹ، ٹیلیفون اور دیگر مواصلاتی ذرائع کی معطلی کی وجہ سے مقبوضہ وادی کا بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے۔کرفیو اور دیگر پابندیوں کے باعث مقامی اخبارات آپنے آن لائن ایڈیشن اپ ڈیٹ نہیں کر پا رہے جبکہ اکثر اخبارات کی اشاعت بھی بند ہے۔ سخت محاصرے کے باعث مقبوضہ علاقے میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہور رہی ہے اور لوگوں کو بچوں کی غذا اورزندگی بچانے والی ادویات سمیت بنیادی اشیائے ضروریہ کی سخت قلت کا سامنا ہے اور مقبوضہ علاقہ ایک انسانی المیے کی تصویر بنا ہوا ہے۔ بھارت نواز سیاست دانوں کے علاوہ سینکڑوں حریت رہنما ؤں اور کارکنوں کو گھروں اور جیلوں میں نظر بند رکھا گیا ہے۔جیلوں اور تھانوں میں مزید گنجائش باقی نہیں رہی ہے اور ایک ہزار سے زائد سیاسی کارکن اس وقت سرینگر، بارہمولہ اور گریز کے عارضی حراستی مراکز میں رکھے گئے ہیں۔
قابض انتظامیہ حراست میں لیے جانے والوں کو نظر بند رکھنے کیلئے اب نجی املاک کرایہ پر لے رہی ہے۔کشمیرکی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے، وادی کے محاصرے اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کیخلاف جمعہ کو کرگل میں ہڑتال کی گئی۔ بھارتی فوجیوں نے ضلع پلوامہ کے علاقے ترال میں ایک چھبیس سالہ صحافی عرفان ملک کورات گئے انکے گھر پرچھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔ سابق کٹھ پتلی زیر اعلی محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا جاوید نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام ایک خط میں لکھا کہ کشمیریوں کو جانورو ں کی طرح قید کر کے انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا گیا۔ جواہر لال نہرو نیورسٹی کی سابق طالب علم اور معروف کشمیری سماجی کارکن شہلا رشید شورہ نے سماجی رابطوں کی سائٹ پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ تمام مقبوضہ کشمیر اس وقت جیل بنا ہوا ہے۔۔۔ ایک کھلی جیل جہاں انتظامیہ ساتویں جماعت کے بچوں کو بھی قید کر رہی ہے۔