پاکستان کی تاریخ میں بے شمار حیران کن دن گزرے ہیں‘ ان حیران کن دنوں میں آج ایک اور دن کا اضافہ ہو گیا‘ آج چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی جیت گئے لیکن جمہوریت‘ سیاست اور اخلاقیات تینوں ہار گئے‘ آپ کمال دیکھیے‘
حکومت 36 ووٹوں کے ساتھ صادق سنجرانی کے پیچھے کھڑی تھی‘ اپوزیشن کے پاس 64 ووٹ تھے‘ کل بلاول بھٹو نے ظہرانہ دیا‘ اپوزیشن کے 64 سینیٹرز شریک ہوئے‘ کل حاصل بزنجو نے ڈنر دیا‘ 64 سینیٹرز شریک ہوئے‘ آج صبح مولانا فضل الرحمن کے ناشتے اور شہباز شریف کے لنچ میں بھی 64 سینیٹرز نے شرکت کی‘ ووٹنگ سے قبل ہاتھ کھڑے ہونے کی باری آئی تو اس وقت بھی 64 سینیٹرز پورے تھے لیکن ایک منٹ بعد خفیہ رائے شماری ہوئی تو اپوزیشن 14 سینیٹرز سے محروم ہو چکی تھی‘ پانچ سینیٹرز نے جان بوجھ کر اپنے ووٹ خراب کر دیے جبکہ 9 سینیٹرز نے اپنی وفاداری بدل لی اور یہ ملک کے بلند اور مقدس ترین ایوان کی اخلاقی حالت ہے‘ یہ اس ملک کی اپوزیشن اور حکومت کا اخلاقی معیار ہے جسے ہم ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں‘ اس اخلاقی حالت کے بعد ہمیں کم از کم اپنی حقیر زبانوں سے ریاست مدینہ کا نام نہیں لینا چاہیے کیوں کہ آج کے بعد یہ دعویٰ کھلم کھلا منافقت ہو گی‘ حکومتی ارکان کا اعتماد اپوزیشن کو سب کچھ بتا رہا تھا لیکن اپوزیشن مغالطے میں کیوں تھی؟ اور اتنی خوفناک شکست کے بعد اب اپوزیشن کے پاس کیا آپشن بچا ہے؟