ملکوں کے تعلقات جذبات نہیں ضرورتوں اور رویوں کی بنیاد پر چلتے ہیں‘ آپ اگر کسی ملک کے ساتھ اچھا رویہ رکھیں گے تو وہ بھی جواب میں بہت اچھا ریسپانس دے گا اور آپ اگر دوسرے ملک میں اپنی ضرورت پیدا کر لیں گے تو بھی آپ کو اچھا ریسپانس ملے گا‘ پاکستان اور امریکا کے درمیان ریمنڈ ڈیوس اور صلالہ پوسٹ پر حملے کی وجہ سے 2011ء میں تعلقات خراب ہو گئے تھے‘میاں نواز شریف دو بار امریکا کے دورے پر گئے‘
یہ پہلی بار اکتوبر 2013ء اور دوسری بار اکتوبر 2015ء میں امریکا گئے لیکن امریکا نے تعلقات کی خرابی کے باوجود میاں نواز شریف کو دونوں مرتبہ ائیرپورٹ پر ریڈ کارپٹ ویل کم دیا مگر اس بار جب عمران خان سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے تو امریکا کا رویہ ناقابل برداشت حد تک افسوس ناک تھا‘ امریکا کا کوئی عہدیدار وزیراعظم کے استقبال کے لیے ائیرپورٹ نہیں پہنچا‘ وزیراعظم کو ریسیو کرنے کے لیے سرکاری گاڑی بھی ایپرن تک نہیں آئی‘ پورا وفد بس میں بیٹھ کر لاؤنج تک آیا‘ ایسا کیوں ہوا‘ اس کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں‘ پہلی وجہ امریکا کے سیکرٹری آف سٹیٹ مائیک پومپیو کا ستمبر میں پاکستان کا دورہ تھا‘ یہ پاکستان کا وزٹ کرنے والے ٹرمپ گورنمنٹ کے پہلے نمائندے تھے‘ ہم نے ان کے استقبال کے لیے فارن آفس کا غیر معروف اور چھوٹا نمائندہ ائیرپورٹ بھجوایا تھا‘ وزیراعظم نے بھی ملاقات کے دوران سفارتی اخلاقیات کا خیال نہیں رکھا تھا‘ یہ نرم سا ہاتھ ملا کر بیٹھ گئے تھے جبکہ مائیک پومپیو جب پاکستان سے انڈیا گئے تھے تو انڈیا نے ان کا بھرپور استقبال کیا تھا‘ امریکا نے20 جولائی کو عمران خان کو کولڈ شولڈر دے کر مائیک پومپیو کا بدلہ لے لیا اور دوسرا امریکا نے ہمیں یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہماری نظر میں آپ کی کوئی اہمیت نہیں‘ یہ سلوک کیوں ہوا اور ہم نے یہ کیوں برداشت کیا جبکہ عمران خان نے کل پاکستانی کمیونٹی کے بھرپور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این آر او نہیں دوں گا، جیل میں ا ے سی اور ٹی وی بند کروانے کا کہا، کیا قیدیوں کا اے سی بند کرنا وزیراعظم کا کام ہے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری شدید بیمار ہیں‘ اگر خدانخواستہ ان کو کچھ ہو گیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟