اسلام آباد (این این آئی) قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے ایک بار پھر حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہاہے کہ ایوان صدر میں طوطوں کے پنجروں کے لئے 18 لاکھ رکھ دیئے، یہی کفایت شعاری ہے؟ پروٹوکول نہ لانے والے دعویداروں نے ہزاروں اہلکار بنی گالہ لگادیئے، حکمرانوں کو اعتراف کرنا چاہیے کہ عوام سے غلط بیانی کی تھی، متنازعہ الیکشن ملک میں ہوئے پھر اس کیلئے تیس ارب روپے دئیے جارہے ہیں۔
حکومت کو آمدن بڑھانے کے وسائل تلاش کرنے ہونگے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ قائد حزب اختلاف نے جن معاملات کی نشاندہی کی ہے اس پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں ۔قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہفتہ کو بھی جاری رہا ۔ مسلم لیگ (ن)کے رانا تنویر حسین نے کہاکہ کفایت شعاری مہم چلانے والے نہ صرف ہیلی کاپٹروں پر آتے ہیں بلکہ بیرون ملک دوروں میں کابینہ کے ساتھ رشتہ داروں کو بھی لے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ ایوان صدر میں طوطوں کے پنجروں کے لئے 18 لاکھ رکھ دیئے، یہی کفایت شعاری ہے؟۔انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ نے سپلیمنٹری گرانٹس کو کم سے کم کرنے کا فیصلہ دیا ہوا ہے مگر کیا کریں اس نالائق حکومت کا ۔ انہوں نے کہاکہ پروٹوکول نہ لانے والے دعویداروں نے ہزاروں اہلکار بنی گالہ لگادیئے ۔ انہوں نے کہاکہ حکمرانوں کو قوم کے سامنے اعتراف کرنا چاہیے کہ انہوں نے عوام سے غلط بیانی کی تھی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے سپیلمنٹری بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ حکومت نے گزشتہ روز جو قانون پاس کرایا ہے اگر اس پر عمل ہوتا ہے سپیلمنٹری بجٹ ریگولر بجٹ میں استعمال نہیں کر سکیں گے ۔انہوں نے کہاکہ پی آئی ڈی کو پروپیگنڈہ کے استعمال کیلئے پیسے دئیے گئے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ نیب کے اپنے پاس پیسے ہوتے ہیں پھر حکومت انہیں کیوں پیسے دے رہی ہے ؟۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے کفایت شعاری کا پیغام غلط جا رہا ہے۔سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سپلیمنٹری بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ متنازعہ الیکشن ملک میں ہوئے پھر اس کے لیے تیس ارب روپے دئیے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جس ملک میں متنازعہ الیکشن ہوئے وہاں ترقی کا عمل رک جاتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سابقہ فاٹا میں بھی الیکشن متنازعہ ہونے جارہے ہیں ۔
پولنگ اسٹیشن کے اندر فوج تعینات نہ کی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ انڈیا میں الیکشن ہوئے وہاں پر ایک بھی سیاسی جماعت نے دھاندلی کی شکایت نہیں کی ۔ انہوں نے کہاکہ سپلیمنٹری گرانٹس کس محکمے کی نہیں ہے ،ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 35 ارب روپے کا خسارہ ہے حکومت کو تمام مسائل سامنے رکھنے چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو آمدن بڑھانے کے وسائل تلاش کرنے ہونگے۔انہوںنے کہاکہ دفاعی بجٹ میں کٹوتی ملک کی خودمختاری کا سودا کرنے کے مترادف ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ اجلاس سے قبل قومی اسمبلی میں گزشتہ 10 ماہ کے دوران ایک منٹ بھی مثبت بحث نہیں ہوئی۔انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو مخاطب کرکے شکایت کہ بجٹ پر تقریر کی تعداد محدود کرنے کے معاملے پر آپ کی رضامندی شامل نہیں ہونی چاہیے تھی۔اس دوران شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کو جلدی ہے لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اگر پارلیمنٹ میں بات نہیں ہوگی تو کدھر ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ اپوزیشن جماعتوں کو صرف 6 تقاریر کرنے کی اجازت دی گئی آخراتنی جلدی کیا ہے۔جس پر اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جواب دیا کہ آپ کی لیڈرشپ نے خود آمادگی کا اظہار کیا تھا کہ 3تقاریرمسلم لیگ (ن)، 2 تقاریر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایک متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو کرنے کی اجازت دی جائے۔اس پر شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا کہ معذرت سے کہوں گا کہ آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ یہ قبول نہیں ہے۔اسد قیصر نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ بحث ہوئی ہے جس کی تفصیلات جلد فراہم کردی جائے گی۔
شاہد خاقان عباسی نے اصرار کیا کہ بجٹ اجلاسوں کو دنوں سے نہیں گنیں بلکہ یہ گنیں کہ اسمبلی میں بجٹ پر کتنی مثبت بحث ہوئی، کتنے لوگوں نے کی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگلے مالی سال کے بجٹ تک عوام پر 5 سے 7 ہزار ارب روپے کے اضافی قرضے کے بوجھ ڈالیں گے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ قائد حزب اختلاف نے جن معاملات کی نشاندہی کی ہے اس پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اپنا موقف اس ایوان میں بیان کرنے کے لئے تیار ہے، اپوزیشن میں سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے ۔
انہوں نے کہاکہ گذشتہ دنوں میں معیشت پر ہی بات ہوتی رہی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ پر جتنی بنچ ہوئی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ انہوں نے کہاکہ ایک پارٹی کے سربراہ نے بجٹ منظوری کے بعد باہر کہا کہ بجٹ بامعنی بحث کریں، گالم گلوچ نہ کریں، ہم تیار ہیں۔وزیر مملکت حماد اظہر نے ذاتی وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ بجٹ پر بات کرنے کو ذاتیات پر نہ لیا جائے ،میں نے حقائق بیان کئے کسی کو چور نہیں کہا ،سپیلمنٹری گرانٹس سابقہ دور کی ہیں ۔حماد اظہر نے کہاکہ یہ ضمنی گرانٹس سال 1993سے لیکر 2018 تک کی ہیں ،پچھلے سال ضمنی گرانٹس 600ارب روپے تھی جبکہ ہمارے مہینوں میں 228.14ارب روپے ضمنی گرانٹس بنی