اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) سب جانتے ہیں کہ ہیروئن دیگر تمام اقسام کے نشوں کی نسبت زیادہ خطرناک، تباہ کن نتائج کا حامل اور زیادہ استعمال کی صورت میں مہلک ثابت ہوتا ہے لیکن اس سوال کا جواب اکثریت کے پاس نہیں ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سا عنصر ہوتا ہے جو کہ ہیروئن کو مہلک بناتا ہے؟ ہیروئن کے بارے میں شائد آپ اس دلچسپ حقیقت سے بے خبر ہوں کہ دنیا کو ہیروئن سے متعارف کروانے والا کوئی اور نہیں بلکہ برطانوی دوا ساز ادارہ بائیر تھا۔ اس کمپنی نے ہیروئن کو درد کش اور کھانسی روکنے میں معاون ایسی دوا کے طور پر پیش کیا تھا جس سے نشے کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی ہے۔ اس وقت یعنی کہ1898میں اسے مارفین کا متبادل سمجھا گیا جبکہ اس کا نام ہیروئن رکھنے کی وجہ اور بھی دلچسپ ہے۔ دراصل اسے جب تجرباتی بنیادوں پر دیا گیا تو اسے استعمال کرنے والوں نے خود میں جادوئی تبدیلیوں کو محسوس کیا جسے انگریزی میں زبان میں ”ہیروئک فیلنگ“ کا نام دیا گیا اوراسی مناسبت سے اس دوا کا نام ہیروئن رکھ دیا گیا۔ اس وقت یہ اتنی مقبول ہوئی کہ متعدد طاقت بخش ادویات میں اس کا استعمال عام ہوگیا اور ادویات کی دوکانوں پر یہ عام طلب کرنے پر مل جاتی تھی۔ جلد ہی اس کی نشہ آور خصوصیات کے بارے میں علم ہونے پر 1914میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صرف معالج کے نسخے کی دستیابی کی صورت میں ہی اسے فروخت کیا جائے گا۔ دس برس کے دوران اس کے اس قدر نقصانات سامنے آگئے کہ حکومت نے اس کی فروخت پر کلی طور پر پابندی عائد کردی۔ہیروئن اور اس نوع کے دیگر نشے انسانی دماغ میں موجود نیوروٹرانسمیٹر جنہیں اینڈورفنز کہا جاتا ہے، متاثر کرتی ہیں۔ یہ نیوروٹرانسمیٹر درد اور دباو¿ کی کیفیت پر قابو پانے میں مدد دیتے ہیں۔ ہیروئن ان نیوروٹرانسمیٹر کو اپنی گرفت میں لینا شروع کردیتی ہے اور زیادہ مقدار میں نشے کی صورت میں یہ ٹرانسمیٹرز مکمل طور پر کام چھوڑ دیتے ہیں جس کی وجہ سے درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہونے لگتی ہے۔ ہیروئن کے نشے سے پیدا ہونے والی سرور کی کیفیت بھی اسی حصے کے ذریعے محسوس کی جاتی ہے اور چونکہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ حصہ کام چھوڑ رہا ہوتا ہے، اسی لئے ہیروئن کا نشہ کرنے والا مقدار بھی بڑھاتا جاتا ہے۔ ہیروئن کا نشہ کرنے والے افراد اپنے جسم میں ایک انتہائی شدید نوعیت کا سکون محسوس کرتے ہیں۔ اعصاب کو سکون دینے والی یہ کیفیت اس قدر ہوتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو ہوا میں ہلکا پھلکا اور اڑتا ہوا بھی محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں ”جہاز“ بھی کہا جاتا ہے۔اسی کیفیت کے سبب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ دنیاوی غموں اور پریشانیوں سے آزاد ہوچکے ہیں۔ اعصاب کے پرسکون ہونے کی کیفیت ہی دراصل اسے مہلک بناتی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے کبھی کبھار جسم اس قدر سکون کی حالت میں آجاتا ہے کہ وہ سانس لینا بھی چھوڑ دیتا ہے جس سے نشئی کی موت ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ چونکہ یہ حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق یہ ایک طے کردہ معیار کے مطابق تیار نہیں کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ ہیروئن کی ایک بار کی مقدار میں اصل ہیروئن کی مقدار صرف دس فیصد ہوتی ہے اور دوسری خوراک میں نشہ آور اجزا کی مقدار ساٹھ فیصد بھی ہوسکتی ہے۔ جسم یک دم نشے کی اتنی بڑی مقدار کو برداشت نہیں کرپاتا ہے اور کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔لانسیٹ نامی تحقیقاتی جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہیروئن شراب کے بعد دوسرا مہلک ترین نشہ ہے۔