اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) میگا منی لانڈرنگ و جعلی بینک اکائونس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے جعلی بینک اکائونٹس کا معاملہ تحقیقات کیلئے قومی احتساب بیورو کو بھیج دیا ہے۔ چیف جسٹس نے نیب کو حکم دیا ہے کہ وہ معاملے کی ازسر نو تحقیقات کرے اور اپنی تحقیقات 2ماہ میں مکمل کرے۔ چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کے نوجوان
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کا بھی حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس فیصل عرب بھی شامل ہیں نے آج کیس کی سماعت کی۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کی رپورت کے مطابق اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ‘وفاقی کابینہ نے ای سی ایل میں ڈالے گئے ناموں کا معاملہ جائزہ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے اور 10 جنوری کو اس معاملے میں مزید پیشرفت متوقع ہے۔اومنی گروپ کے وکیل نے دوران سماعت کہا کہ معاملہ کابینہ کمیٹی کو بھجوا کر الجھا دیا گیا ، معلوم نہیں کتنا وقت لگے گا جس پر چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ کو مسئلہ ہے تو کابینہ کو چھوڑیں میں ای سی ایل میں نام ڈال دیتا ہوں۔ ‘آپ اصل کیس کی طرف نہیں آ رہے۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ‘اومنی گروپ کے خلاف اتنا مواد آ چکا ہے کہ کوئی آنکھیں بند نہیں کر سکتا، اوپر سے چینی کی بوریاں بھی اٹھالی گئیں، یہ بتائیں کہ معاملہ اب کس کورٹ کو بھیجیں؟دوران سماعت چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے وکیل سے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ بلاول زرداری کو کیوں ملوث کیا گیا، وہ معصوم بچہ ہے، جو صرف اپنی والدہ کی لیگیسی کو آگے بڑھا رہا ہے، آپ نے اس کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا۔ساتھ ہی
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے بلاول زرداری کو بدنام کرنے کے لیے انہیں معاملے میں شامل کیا ہے یا کسی کے کہنے پر بلاول زرداری کو شامل کیا؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلاول بھٹو زرداری کا کیریئر ابھی تک بے داغ ہے، ان کے والد اور پھوپھی کا تو اس معاملے میں کوئی کردار ہوگا لیکن بلاول کا کیا کردار ہے؟ جے آئی ٹی بلاول بھٹو زرداری سے
متعلق مطمئن کرے۔جس پر جے آئے ٹی وکیل فیصل صدیقی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحہ 57 پر پارک لین کی ایک پراپرٹی کا ذکر ہے، جسے جعلی اکاؤنٹس سے خریدا گیا اور اس جائیداد میں بلاول بھٹو کے 25 فیصد شیئر ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر شیئر ہیں تو کیسے ثابت ہوا کہ بلاول نے کوئی جرم کیا ہے؟ جائیداد کو منجمد کر دیتے ہیں
لیکن اس بنیاد پر بلاول کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈالا جا سکتا۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کے روبرو کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو شامل تفتیش کیے بغیر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مراد علی شاہ کی عزت نفس مجروح کی جا رہی ہے، دیکھ تو لیتے کہ وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں، کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس نے بلاول بھٹو زرداری اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بلاول بھٹو زرداری اور مرادعلی شاہ کے نام شامل کیے گئے۔