برطانیہ (مانیٹرنگ ڈیسک ) ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی حالیہ رپورٹ میں ٹوئٹر پر خواتین کو دھمکانے اور ہراساں کیے جانے پر اسے خواتین کے لیے ’ خطرناک‘ جگہ قرار دے دیا۔ دی انڈی پینڈنٹ کے مطابق انسانی حقوق کی غیرسرکاری تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹوئٹر پرخواتین کو ہراساں کیے جانے سے متعلق جاری کی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ سفید فام خواتین کی بہ نسبت دیگر خواتین کو
توہین آمیز مواد کا نشانہ بنائے جانے کے 34 فیصد زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ مزید برآں اکثر توہین آمیز ٹوئٹس میں 84 فیصد سیاہ فام خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ’ توہین آمیز مواد ٹوئٹر کے ذاتی قوانین کی خلاف ورزی ہے،توہین آمیز مواد میں انتہا پسندی کو فروغ دینے، لوگوں کو ان کی نسل، قومیت، آبائی صنفی شناخت، مذہب، عمر ، معذوری یا سنجیدہ بیماری پر دھمکانے سے متعلق ٹوئٹ شامل ہیں‘۔ رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا کہ 10 ٹوئٹس میں سے ایک میں سیاہ فام خاتون جبکہ 15 ٹوئٹس میں سے ایک میں سفید فام خاتون کے لیے غیر مہذب زبان استعمال کی گئی۔ ’ ٹرول پیٹرول ‘ کے عنوان سے جاری کی گئی اس تحقیق میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے رضاکاروں اور مونٹریال میں مقیم اسٹارٹ اپ ایلیمینٹ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے کراؤڈ سورسنگ پروجیکٹ کے تحت 2017 کے جنوری اور دسمبر میں امریکا اور برطانیہ کی سیاست سے وابستہ 7 سو 78 خواتین سیاستدانوں اور صحافیوں کو بھیجے گئے 2 لاکھ 28 ہزار ٹوئٹس کا جائزہ لیا گیا۔ تاہم ٹوئٹر نے اس رپورٹ پر رد عمل دیا کہ توہین آمیز رویے سے متعلق ان کی پالیسی ایسے مواد پابندی عائد کرتی ہے جو کسی دوسرے فرد کو ہراساں کرنے، دھمکانے کے لیے استعمال ہوں۔ ٹوئٹر کی قانونی، پالیسی اور سیفٹی چیف وجایا گادے کا کہنا تھا کہ ’ ہم ٹیکنالوجی اور آلات کو مزید بہتر بنانے کے لیے شفافیت سے کام کررہے ہیں تاکہ توہین آمیز، انتہا پسند مواد کو مزید تیزی سے پہچان کر کے اسے ٹوئٹر پر پھیلنے سے روکا جائے‘۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیقات کے رد عمل میں شیڈو ہوم سیکریٹری ڈیان ایبٹ نے سوشل ٹوئٹر کو ’ انتہائی نسل پرست اور گمراہ کن ٹوئٹ ہٹانے کا مطالبہ کیا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ میرا اسٹاف اب تک سوشل میڈیا سے توہین اور دھمکی آمیز مواد ہٹانے اور بلاک کرنے میں صرف کرتا ہے‘۔
ڈیان ایبٹ نے مزید کہا کہ ’ یہ مواد انتہائی نسل پرست اور خواتین سے نفرت پر مبنی ہے‘۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی نفرت انگیز مواد تشدد کو بڑھا سکتا ہے اور ٹوئٹر پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسا مواد شیئر کرنے والے اکاؤنٹس کو مزید تیزی سے بند کرے۔ ڈیان ایبٹ کا مزید کہنا تھا کہ’ ٹوئٹر میں جب تک اکاؤنٹ بند نہ ہو
اس وقت تک توہین آمیز تبصروں کو ڈیلیٹ کرنے کا طریقہ بھی موجود نہیں ‘۔ خیال رہے کہ ستمبر 2017 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی علیحدہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ایبٹ ڈیان کو اس سال ہونے والے عام انتخابات میں خواتین وزرا کو بھیجے گئے توہین آمیز ٹوئٹس کے تقریباً نصف یعنی 45.1 فیصد ٹوئٹ موصول ہوئے تھے۔