اسلام آباد(آن لائن)ٹیکسز کی بھرمار ،غیر سنجیدہ اور ایڈہاک پالیسیوں نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا،پاکستان کے غریب عوام پر 47 قسم کے ٹیکسز نافذہونے کا انکشاف ہوا ہے ، جبکہ بھارت میں صرف 13 ٹیکسز نافذ ہیں اور دنیا میں ٹیکس دینے والے ممالک کی رینکنگ میں پہلی پوزیشن لینے والے ہانک کانگ میں صرف 3 قسم کے ٹیکسز نافذہیں،ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسوں کی وجہ سے پاکستان بنگلہ دیش۔بھارت ،ایران اور چین سے معاشی لحاط سے بہت پیچھے رہ گیا،
زرائع کے مطابق پاکستان میں ٹیکس سسٹم انتہائی پیچیدہ ہے،پاکستان میں دنیا کے 191 ممالک کی فہست میں ٹیکس دینے والے ممالک کی رینکنگ میں 173 نمبر پر ہے،اور یہاں پر 47 قسم کے ٹیکس نافز ہیں،121 اینکنگ رکھنے والے بھارت میں 13 قسم کے ٹیکس اور ہانگ کانگ جوکہ ٹیکس دینے والے ممالک کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر ہے میں صرف 3 قسم کے ٹیکس نافذہیں،پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس 37 فیصد اور 17 فیصد سیلز ٹیکس ناگز ہے،جبکہ دیگر مسانقتی ممالک میں یہ ٹیکس پاکستان کی نسبت کم ہیں، سنگا پور میں کارپوریٹ ٹیکس 17 فیصد،اور جی ایس ٹی 7 فیصد ہے،بنگلہ دیش میں کارپوریٹ ٹیکس 15 فیصد جبکہ جنرل سیلز ٹیکس 12 فیصد ہے،سری لنکا میں کارپوریٹ ٹیکس 25 فیصد اور جی ایس ٹی 15 فیصد ہے،ویت نام میں کارپوریت ٹیکس 22 فیصد اور 10 فیصد جی ایس ٹی ہے،زرائع کے مطابق پاکستان کی برآمدات علاقائی ممالک کی برآمدات کے مقابلے میں بڑھنے کا تناسب انتہائی کم ہیجس کی وجہ سے پاکستان اپنے خطے اور پڑوسی ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے اور بنگلادیش جیسا ملک پاکستان سے آگے نکل گیا۔اس وقت چین کی برآمدات 2200 ارب ڈالر سے زائد، بھارتی برآمدات 303 ارب ڈالر، ایران کی تیل کے علاوہ برآمدات 50 ارب ڈالر، حتیٰ کہ بنگلادیش کی برآمدات 41 ارب ڈالر کے ساتھ پاکستان سے تقریباً دگنی ہو چکی ہے۔2001 میں بنگلادیش کی برآمدات بمشکل 6 ارب ڈالر اور پاکستانی برآمدات 10 ارب ڈالر سے زائد تھی،
تقریباً گزشتہ 20 سال میں بنگلا دیش کی برآمدات 700 فیصد بڑھ گئی جب کہ پاکستانی برآمدات خطرناک حد تک سست روی کیساتھ صرف 100 فیصد تک ہی بڑھی ہے۔غیر سنجیدگی، صنعت پر عدم توجہی، جدت کے فقدان اور مربوط پالیسی نہ ہونے کے سبب ہوا یہ کہ پاکستان امپورٹ اکنامی بن گیا جہاں سیب بھی نیوزی لینڈ کے آنے لگے جب کہ بھارت دور کی بات بنگلادیش جیسے ملک پاکستان سے آگے نکل گئے۔برآمدات کے لیے سارا خام مال اگر امپوٹ کرنا پڑ ے تو برآمدات پرکشش نہیں رہتیں، اسٹیل ترقی کا پہیہ ہے،
دیکھتے ہی دیکھتے پڑوسی ملک ایران 20 ملین ٹن اسٹیل بنانے لگا اور پاکستا ن میں نئی بڑی مل بننا تو درکنار 1972 کی اسٹیل تک بند ہوگئی۔برانڈنگ پر محنت نہ ہونا اور فنشڈ پروڈکٹس کی بجائے بہت بنیادی نوعیت کا مال بنانا بھی پاکستان کی برآمدات میں کمی کی وجہ ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ سرکاری ادارے صنعتیں لگوانے میں سہولت کاری کے بجائے ایسی رکاوٹ اور ڈاکے ڈالتے ہیں کہ حوصلہ شکنی کا شکار صنعت کار امپورٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔بھارتی برآمدات 300 ارب ڈالر سے زائد ہو گئیں اور بھارتی آبادی سائز کے اعتبار سے ہمیں 50 ارب ڈالر تک ہر صورت ہونا چاہیے تھا لیکن حکمران ہوں یا عوام یا صنعت کار، سب امپورٹ اکنامی کو آسان سمجھ کر اپنے ہی پاؤ ں پر کلہاڑا اور پاکستان کو خطے میں سب سے پیچھے کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔