لاہور (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے کیس میں سابق سرکاری ملازمین کی غیر ملکی حکومت کی ملازمت کی ممانعت کے قانون مجریہ 1966ء میں طے کی گئی سزاؤں کا ذکر بھی کیا، واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے بنچ جس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کی اور مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال اور مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن اس بنچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ کے اس فاضل بنچ نے اس قانون کے سیکشن 4 کو اپنے فیصلے میں ری پروڈیوس کیا ہے اور اس کے تحت پاکستان کی حکومت کی اجازت کے بغیر غیر ملکی حکومت کی ملازمت حاصل کرنے پر سات سال تک قید اور پچاس ہزار روپے تک کا جرمانہ یا پھر جائیداد ضبطگی کی سزا ہو سکتی ہے، اس ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ جو آدمی وفاقی یا صوبائی حکومت کی ملازمت میں رہا ہو وہ کسی غیر ملکی حکومت یا ایجنسی کی ملازمت نہیں کر سکتا، جب تک وہ وفاقی حکومت یا اس کے مقرر کردہ مجاز حاکم سے پیشگی اجازت نامہ نہیں لے لیتا، سپریم کورٹ نے پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف جو کہ آج کل سعودی عرب میں اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ ہیں کے بیرون ملک ملازمت کے این او سی کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور حکومت کو اس کی درستی کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری نہ ہونے کی صورت میں جنرل (ر) راحیل شریف اپنی موجود ہ غیر ملکی ملازمت سے فوری طور پر سبکدوش تصور کیے جائیں گے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی حکومت سے مراد وفاقی کابینہ ہے۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری افسران کی دہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اہم سرکاری عہدوں پر دہری شہریت والے افسران کو تعینات نہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کابینہ کی منظوری کے بعد اس حوالے سے قانون سازی کرے۔
ہفتہ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس پر فیصلہ سنا دیا ،سپریم کورٹ نے دہری شہریت سے متعلق فیصلہ ستمبر 2018 میں محفوظ کیا تھا، جو ہفتہ کوسنایا گیا۔عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی کہ کابینہ کی منظوری کے بعد دہری شہریت کے معاملے پر قانون سازی کی جائے۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آئندہ اہم سرکاری عہدوں پر دہری شہریت والے افسران کو تعینات نہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے سرکاری افسران کی دہری شہریت کے معاملے پر ازخود نوٹس لے کر ملک بھر میں اہم عہدوں پر تعینات سرکاری عہدیداروں کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے تحقیقات کے بعد دہری شہریت کے حامل ایک ہزار سے افراد کی فہرست پیش کی گئی۔ایف آئی اے نے عدالت عظمی کو بتایا تھا کہ 719 افسران نے اپنی دہری شہریت سے متعلق بتا دیا تھا جبکہ باقی افراد نے اسے چھپایا،اس کیس کے سلسلے میں اٹارنی جنرل اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔