ریاض(نیوزڈیسک) سیکیورٹی کے معاملات اور سوشل میڈیا کے مسائل کے ماہرین کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ 70 لاکھ (17 ملین) سعودی باشندے الیکٹرانک دہشت گردی کے خطرے کی زد میں ہیں۔سعودی گزٹ کی رپورٹ میں الوطن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 46 ہزار سے زیادہ تعداد میں ویب سائٹس داعش (نام نہاد اسلامک اسٹیٹ) کی حمایت کرتی ہیں۔ایک ماہر حسن الدجاح کہتے ہیں کہ ”جب ہم دیکھتے ہیں کہ سعودی عرب میں ایک کروڑ 70 لاکھ خواتین و حضرات انٹرنیٹ کا استعمال کررہے ہیں، تو ہمیں اپنے معاشرے کو لاحق الیکٹرانک خطرے کی شدت کا احساس کرنا ہوگا۔“انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سعودی عرب میں متعلقہ حکام نے فوری طور پر اقدام نہیں کیا تو داعش کی جانب سے معاشرے کو متاثر کرنے کا امکان بڑھ جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ داعش کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے ویب سائٹس ایک بہترین ہتھیار ہیں، اس لیے کہ وہ جسمانی کنٹرول، نگرانی یا پابندیوں سے دور ہیں۔”یہ ویب سائٹس باآسانی قابلِ رسائی ہیں، اور سعودی معاشرے کے تمام افراد کے درمیان پھیل رہی ہیں۔“حسن الدجاح نے کہا کہ دہشت گرد تنظیمیں ”جذباتی اور پ±رجوش“ پیغامات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کرتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ”یہ لوگ اعتدال پسند علماء کی جانب سے پیش کیے گئے خیالات اور نظریات کی قدروقیمت کو گھٹا کر پیش کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔“ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد تنظیمیں مسلمانوں کو متاثر کرنے والے بین الاقوامی واقعات کا ناجائز طور پر فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے انہیں عرب اور دیگر مسلم حکومتوں کے فیصلے سے براہِ راست منسلک کریں گی۔حسن الدجاح نے کہا ”دہشت گرد عرب اور اسلامی حکومتوں کو مغربی ممالک کی کٹھ پتلی قرار دے کر مسلم نوجوانوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر آنے والی تمام تباہی ان حکومتوں کی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔“ایک وکیل اور قانونی مشیر ابراہیم زمزمی کہتے ہیں کہ میڈیا کرائم کے قانون کے تحت دس سال قید اور پچاس لاکھ سعودی ریال جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔انہوں نے واضح کیا کہ میڈیا کرائم میں دہشت گردی کی ویب سائٹ تیار کرنا، اس طرح کی تنظیموں کے رہنماو¿ں یا اراکین کے ساتھ رابطے کی سہولیات فراہم کرنا، سعودی عرب کے اندر یا بیرون ملک دہشت گردوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنا، ان کے نظریات کا پرچار کرنا، انٹرنیٹ پردھماکہ خیز مواد کی تیاری میں مدد دینا اور کسی بھی فورم پر ان کی حمایت کرنا، شامل ہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں