منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

شہباز شریف بری طرح پھنس گئے ،جسمانی ریمانڈ میں بڑی توسیع ،آشیانہ سکینڈل کے بعد ایک اور کیس میں بھی گرفتاری ڈال دی گئی،سنسنی خیز انکشافات

datetime 10  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی )احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے صدر ، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 14 روز کی توسیع کردی، نیب نے شہباز شریف کی رمضان شوگر ملز کیس میں بھی گرفتاری ظاہر کر دی ،شہباز شریف سے اظہار یکجہتی کیلئے آنے والے لیگی اراکین اسمبلی اور کارکنوں کو رکاوٹیں اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کر کے احتساب عدالت سے دور ہی روک دیا گیا

جبکہ اس دوران پولیس اور کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی اور جھڑپیں بھی ہوئیں۔ تفصیلات کے مطابق نیب کی جانب سے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کو سخت سکیورٹی میں اسلام آباد سے لاہور ائیر پورٹ لایا گیا جہاں سے انہیں رینجرزاور پولیس کی سخت سکیورٹی میں جوڈیشل کمپلیکس میں احتساب عدالت کے جج نجم الحسن کی عدالت میں پیش کیا گیا ۔ سماعت کا آغاز ہونے پر نیب کی جانب سے خصوصی پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ دلائل دئیے۔اس دوران کمرہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا جس پر احتساب عدالت کے جج نے استفسار کیا ۔شہباز شریف نے کہا کہ جج صاحب یہ کارکن نہیں، وکلا ء دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔احتساب کے جج نے کہا کہ یہ وکیل کیوں آئے ہیں، کیا یہ شہباز شریف سے اظہار یکجہتی کرنے آئے ہیں۔شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ ہم نے ان وکلا ء کو نہیں بلایا، ہم تو چاہتے ہیں کہ اچھے حالات میں سماعت ہو۔جس پر احتساب عدالت کے جج نے برہمی کا اظہار کیا اور ایس پی کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ میں ان حالات میں سماعت نہیں کرسکتااورسماعت کچھ دیر کے لیے روک دی گئی ۔مختصر وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو نیب کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ آج دس نومبر کو رمضان شوگر ملز کیس میں بھی شہباز شریف کی گرفتاری ڈالی گئی ہے ۔جس پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ عدالت کو جو نئی درخواست دی گئی ہے وہ غلط بنیاد پر دی گئی ہے۔قانون کہتا ہے کہ ایک کیس میں گرفتار شخص کو دوسرے کیسز میں گرفتار سمجھا جائے گا۔

جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف پر نیا کیس الگ ہے جبکہ موجودہ کیس ثبوت کے ساتھ ہے۔دوران سماعت شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ ان کے موکل کو نیب نے پہلے مرتبہ جون 2018 میں بلایا اور جب بھی نیب نے شہباز شریف کو بلایا وہ تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہوتے رہے۔شہباز شریف نے نیب تحقیقات میں ہر طرح کا تعاون کیا ہے لیکن نیب کی ٹیم جنوری 2018 سے آج تک کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔اس دوران نیب پراسیکیوٹر نے شہباز شریف کے ریمانڈ میں توسیع کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس اور بطور اپوزیشن لیڈر مصروفیت کے باعث مکمل تفتیش نہیں کرسکے

جس پر شہباز شریف نے خود اٹھ کر کہا کہ میں حلفیہ کہتا ہوں کہ پروڈکشن آڈر کے دوران بھی مجھ سے تفتیش کی جاتی رہی ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسی کیس میں گرفتار احد چیمہ نے خود ایک فزیبلٹی رپورٹ بنائی جس پر عدالت نے کہا کہ آپ فزیبلٹی سے آگے بھی آئیں۔وکیل شہباز شریف نے کہا کہ جوفزیبلی رپورٹ ایل ڈی اے یا کسی اور نے تیار کی اس کا میرے موکل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے موکل کے جسمانی ریمانڈ کی کوئی ضرورت نہیں ، یہ عدالت کسی ملزم کا خودکار طور پر 90 روز کا ریمانڈ دینے کی پابند نہیں۔عدالت میں سماعت کے دوران وکیل شہباز شریف نے دلائل دئیے کہ جس درخواست پر ریمانڈ کی استدعا کی جارہی ہے

وہ قانون کے مطابق نہیں اور عدالت کے سامنے نیب نے جو نئی درخواست دی ہے وہ مفروضات پر ہے۔دوران سماعت وکیل کی جانب سے مختلف عدالتی فیصلوں کی مثال دے کر ریمانڈ کی مخالفت کی گئی اور ڈائریکٹر جنرل نیب لاہور کے بیان کا بھی ذکر کیا۔انہوں نے کہا کہ ڈی جی نیب لاہور شہباز شریف کے کیس میں پارٹی بن گئے ہیں اور انہوں نے کیسز سے متعلق بہت سے ٹی وی چینلز پر بیانات دئیے ہیں۔ایسے کیس جن پر تفتیش جاری ہے اس پر بیان دیا گیا۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے اعلیٰ ترین فورم پر اپنا احتجاج نہیں کیا ؟ جس پر وکیل نے کہا کہ میرا فورم یہ عدالت ہے میں اس میں اپنا نقطہ بیان کروں گا۔انہوں نے کہا کہ آشیانہ کیس میں حراست یا جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ،

نیب میرے موکل سے جو بھی بات پوچھنا چاہتا ہے وہ جیل میں پوچھ سکتے ہیں جبکہ نیب میرے موکل کو جیل میں سوالنامہ بھی بھیج سکتا ہے۔عدالت نے مزید 15روز کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق نیب کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے شہباز شریف کو 24 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔جبکہ رمضان شوگر کیس میں ریمانڈ نہیں دیا گیا ۔قبل ازیں شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس کے اطراف اور اندر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ عدالت کی طرف آنے والے راستوں کو بھی بند رکھا گیا۔راستوں کی بندش کے باوجود مسلم لیگ(ن)کے کارکنوں نے احتساب عدالت جانے کی کوشش کی تھی جس پر پولیس اور لیگی کارکنوں کے درمیان جھڑپ ہوئی ۔پولیس کی جانب سے ہنگامہ آرائی روکنے کے لیے مظاہرین پر لاٹھی چارج بھی کیا گیا تھا جبکہ کارکنان نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی ۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…