اسلام آباد*قومی اسمبلی کو بتایاگیا ہے کہ پانا ما لیکس میں 444کیسوں میں سے اب تک 294کیسوں میں نوٹس جاری کئے گئے ہیں ٗ 15 کیسوں پر آڈٹ کی کارروائی مکمل کرکے 10 ارب 90 کروڑ روپے کی ڈیمانڈ بتائی گئی ہے ٗ 6 ارب 20 کروڑ روپے وصول کئے گئے ٗسپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے قائم فنڈ میں اب تک 80 کروڑ 40 لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں ٗ
تفصیلات موصول ہونے پر ایوان کو آگاہ کردیا جائے گا جبکہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے ایوان کی کارروائی سوالات کے جواب نہ آنے اور ارکان کے احتجاج پر کچھ دیر کیلئے معطل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو جواب نہ ارسال کرنے والی وزارتوں کے سیکرٹریز کو جوابدہی کے لئے طلب کرلیا ہے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دور ان وزارت خزانہ کی طرف سے تحریری سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق 444 پاکستانیوں کی پانامہ لیکس میں نشاندہی کی گئی ہے ٗایف بی آر نے سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے حوالے سے کوئی پٹیشن دائر نہیں کی اور یہ بات درست نہیں کہ پاناما لیکس میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ فیلڈ افسران نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کی متعلقہ دفعات کے تحت 294 کیسوں میں نوٹس جاری کئے تاہم بقایا 150کیسوں میں نوٹس جاری نہیں کئے گئے جس کی وجہ یہ ہے کہ نامکمل کیسوں کی بناء پر ان کیسوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ جن 294 کیسوں میں کارروائی شروع کی گئی ان میں سے غیر مقیم پاکستانی ہونے کی بنیاد پر چار کیسوں پر کارروائی روک دی گئی۔ 12 افراد وفات پاچکے ہیں۔ 15 کیسوں میں آڈٹ کی کارروائی مکمل کی گئی ہے۔
ان 15 کیسوں میں 10 ارب 90 کروڑ روپے کی ڈیمانڈ بتائی گئی ہے جس میں سے چھ ارب 20 کروڑ روپے وصول کرلئے گئے۔ قومی اسمبلی کو وزارت خزانہ کی طرف سے بتایا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے قائم فنڈ میں اب تک 80 کروڑ 40 لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں جن کی تفصیلات موصول ہونے پر ایوان کو آگاہ کردیا جائے گا۔ وزیر مملکت حماد اظہر نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ
سپریم کورٹ اور وزیراعظم پاکستان دیامر بھاشا ڈیم کے تحت اب تک 804 ملین روپے جمع کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں وقت دیا جائے ہم تفصیلات ایوان میں پیش کردیں گے کہ یہ رقم کہاں کہاں سے آئی ہے۔وقفہ سوالات کے دوران منصوبہ بندی ڈویژن ‘ ترقی و اصلاحات ‘ وزارت داخلہ اور دیگر وزارتوں کے جواب موصول نہ ہونے کا بتایا گیا تو ارکان نے اس پر احتجاج شروع کردیا۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے
پارلیمانی سیکرٹری کنول شوزب کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا کہ ان سے متعلقہ سوال اکنامک افیئر ڈویژن کو بھجوا دیا گیا ہے۔ سپیکر نے کہا کہ یہ طریقہ نہیں ہوتا‘ پہلے آپ طریقہ سیکھیں۔ اس دوران متعدد ارکان نے ایوان میں کھڑے ہوکر ایک ساتھ بولنا شروع کردیا۔ سپیکر نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس طرح ایوان کی کارروائی نہیں چلا سکتے جس پر انہوں نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی دس منٹ کیلئے ملتوی کردی۔
وقفہ سوالات کے دوران جب متعدد وزارتوں کے جواب موصول نہ ہونے کا ایوان کو بتایا گیا تو اس پر سپیکر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف وہپ عامر ڈوگر کو ہدایت کی کہ جن جن وزارتوں کی طرف سے سوالات کے جواب موصول نہیں ہوئے ان وزارتوں کے تمام سیکرٹریز کو میرے چیمبر میں طلب کیا جائے۔وقفہ سوالات کے دور ان محسن شاہ نواز رانجھا نے سوال کیا کہ وزیر یہ بتائیں کہ علیمہ خان کی بیرون ملک جائیداد کے حوالے
سے کیا اقدامات کئے گئے ہیں جس پر وزیر مملکت برائے خزانہ نے بتایا کہ کوئی بھی خاتون ہو یا مجھ سمیت کوئی شخص، جس کا نام بھی آیا تو کارروائی ہوگی۔قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران سابق وزرائے اعظم کے کیمپ آفسز پر ہونے والے اخراجات کی تفصیلات کابینہ ڈویژن نے پیش کردیں، جن کے مطابق نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے کیمپ آفسز میں 1 ارب 43 کروڑ روپے کے اخراجات ہوئے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ شاہد خاقان عباسی کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی جاتی امرا کیمپ آفس قائم رہا، شاہد خاقان عباسی کے اسلام آباد کیمپ آفس پر صرف 2 سال میں 51 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔کابینہ ڈویژن نے بتایا کہ نواز شریف کے جاتی امرا کیمپ آفس میں 2013 سے 2018 تک 92 لاکھ سے زائد اخراجات ہوئے۔