اسلام آباد (این این آئی)وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ چین اور سعودی عرب کے دوروں میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس سے ملکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو،وزیراعظم کا دونوں ممالک کا دورہ کامیاب رہا ہے، حکومت آئی تو بہت سے کرم فرماؤں نے کہا 12 ارب ڈالر کا مسئلہ کون حل کریگا لیکن جب نیتیں صاف ہوں تو اﷲ کی مدد شامل حال ہوتی ہے،سعودی عرب کی سوچ میں تبدیلی نظر آ رہی ہے، غیر جانبداری کا رویہ برقرار رکھنے کی وجہ سے آج ایران اور
سعودی عرب دونوں پاکستان کو اہمیت دے رہے ہیں، پیکیج کے بدلے سعودی عرب نے کوئی شرط عائد نہیں کی، چین کیساتھ اقتصادی تعلقات کو وسعت ملی ہے، سابق حکومت کے جاری منصوبے تکمیل کو پہنچیں گے ،انسانی ترقی کے منصوبوں پر بھی توجہ دی جائیگی، مشرق وسطیٰ میں جو کھچاؤ آج ہے، اتنا ماضی میں کبھی نہیں تھا، سی پیک پر قومی اتفاق ہے، ہم نے اسے نیا رخ دینا ہے، چین پاکستان کا تجارتی عدم توازن درست کرنے اور مارکیٹ تک رسائی دینے کیلئے تیار ہے، چیلنجز کے حل کیلئے سب کو سر جوڑ کر نیا راستہ تلاش کرنا ہوگا، ،پاکستان کی خارجہ پالیسی پارلیمان اور عوام کی خواہشات کی آئینہ دار ہوگی،خواہش ہے یمن میں صورتحال بہتر ہو۔بدھ کو سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ گوادر میں ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے اجلاس کا انعقاد خوش آئند ہے، چیئرمین سینیٹ کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں، بلوچستان اور سندھ کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر جنہوں نے حصہ ڈالا، ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گوادر کا تذکرہ آج دنیا میں ہو رہا ہے، یہ پاکستان کے لئے خوش آئند ہے، سینیٹر رضا ربانی نے جن چیزوں کی نشاندہی کی ہے ان سے بالعموم ہر شہری اتفاق کرتا ہے، انہوں نے ٹروتھ اینڈ ری کنسی لیشن کمیشن کی بات کی ہے، دیکھنا ہوگا کہ کون کون موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ہے،
پی ٹی آئی بھی 74 دن رہی ہے، وہ بھی ایک حصہ دار ہے جو آج ہو رہا ہے وہ ایک دن میں نہیں ہوا، اداروں کا فقدان نظر آ رہا ہے، کمیشن بننا چاہئے تاکہ سب بیٹھ کر سوچیں کہ موجودہ صورتحال کیسے پیدا ہوئی اور کون اس کا ذمہ دار ہے، ہمیں دیکھنا ہے کہ پارلیمان اپنا کام کیسے کرتی ہے، سینیٹ میں پارلیمانی انداز میں کام ہوتا ہے، کاش قومی اسمبلی کا ماحول بھی ایسا ہو جیسا سینیٹ کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ ہم پارلیمنٹرینز کا قد بڑھا نہیں رہے، اس کی عزت میں اضافہ نہیں کر رہے۔
انہوں نے کہاکہ ارکان نے چین اور سعودی عرب کے دوروں کے حوالے سے بات کی ہے اور تجسس کا اظہار کیا ہے، کوئی ایسی چیز نہیں ہوئی جس سے پاکستان کو اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، سعودی عرب سے ہمارے دیرینہ تعلقات تھے اور رہیں گے، کچھ سالوں سے سرد مہری نظر آ رہی تھی اس کو درست کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ہم نے ری انگیج کیا ہے اور کچھ غلط فہمیوں جنہوں نے جنم لیا تھا، کو دور کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ حکومت نے 2015ء میں جو کمٹمنٹ کی تھی
وہ پوری نہ ہو سکی تھی جس سے مسئلہ پیدا ہوا تھا، ہم نے دورے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس کا اظہار سعودی عرب کے اس پیکیج سے ہوتا ہے جو اس نے ہمیں پیش کیا ہے۔انہوں نے کہاکہ سعودی عرب ہر سال ہمیں تیل کی مد میں بہت بڑی رعایت دے گا، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے دیا کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ سعودی عرب نے پیکیج کے بدلے ہم پر کوئی شرائط عائد نہیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ چین کے حوالے سے بھی طرح طرح کی باتیں کی گئیں، وہاں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی
جس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں، چین کا دورہ بہت ہی مفید تھا، ایک دورے میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چین کی چار اعلیٰ ترین قیادت نے ملاقات کی ہو، ہم چار مقاصد لے کر گئے تھے، چاروں میں پیشرفت ہوئی ہے، چین سے تعلقات میں مزید گہرائی پیدا کی گئی ہے، اس کو مزید استحکام ملا ہے، ہم نے اسٹرٹیجک کیساتھ اکنامک ریلیشن شپ کو وسعت دی ہے، ہم دنیا کو مشرق و مغرب کو بھی پیغام دینا چاہتے تھے وہ ہم نے دے دیا ہے، جن چیلنجوں کو ایڈریس کرنا ضروری تھا ان کو کیا ہے،
ہم نے وزرائے خارجہ کے مابین اسٹریٹجک ڈائیلاگ پر اتفاق کیا ہے، پہلے ایسا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت آئی تو بہت سے کرم فرماؤں نے کہا کہ 12 ارب ڈالر کا مسئلہ کون حل کرے گا لیکن جب نیتیں صاف ہوتی ہیں تو اﷲ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ چین نے کہا کہ ہم پاکستان کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چین ٹریڈ بیلنس کو درست کرنے اور مارکیٹ تک رسائی دینے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنی برآمدات کو دوگنا کر سکتا ہے،
وہاں سے اشارے مل رہے ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر اور مالیاتی خسارہ ہمارا مسئلہ رہا ہے، یہ ملک ہمارا ہے اور اس کے چیلنجز کے حل کے لئے سب کو سر جوڑ کر نیا راستہ تلاش کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہاکہ دسمبر میں کابل میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی بات چیت ہوگی جس میں افغانستان میں امن عمل اور امن و ترقی کے لئے کردار پر بات ہوگی۔انہوں نے کہاکہ سی پیک پر قومی اتفاق ہے، ہم نے اسے نیا رخ دینا ہے، سابق حکومت نے اپنی دانست میں اقدامات اٹھائے
جو درست ہوں گے، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر توجہ رہی جو منصوبے جاری ہیں وہ جاری رہیں گے اور پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔انہوں نے کہاکہ اب دوسرے مرحلے میں ہم انفراسٹرکچر کی بجائے ہیومن ڈویلپمنٹ اور انسانی وسائل کی ترقی پر توجہ دیں گے۔انہوں نے کہاکہ تعلیم، صحت، ہنر مند افرادی قوت، غربت کے خاتمے، صنعتی ترقی، زراعت، خصوصی صنعتی زونز پر توجہ دیں گے، گوادر کی تیز ترقی بہت ضروری ہے، چین نے ایک بین الاقوامی امپورٹ ایکسپو کرائی ہے جس میں 130 ممالک اور نامور بین الاقوامی اداروں نے حصہ لیا ہے، اس ایکسپو میں سات اہم مقررین تھے جنہیں خطاب کا موقع دیا گیا، ان میں ایک پاکستانی تھا۔ انہوں نے کہا کہ یمن کے حوالے سے سینیٹ کی تحریک میں بات کی گئی ہے، مشرق وسطیٰ میں جو کچھاؤ آج ہے وہ ماضی میں نہیں تھا، آج جس سطح کا کھچاؤ ایران اور سعودی عرب دونوں جانب ہے یہ پہلے نہیں تھا، ہم پراکسی وارز کی نذر ہو رہے ہیں، جو شام و لیبیا میں ہو رہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ پاکستان کو یہ صورتحال متاثر کر سکتی ہے۔ ایوان کو احساس دلانا چاہتا ہوں کہ چیلنج کس نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا جو رشتہ و تعلق بشار الاسد سے جڑا ہے اس کا عربوں پر جو تاثر ہے اس سے یہ ایوان واقف ہے۔ ہندوستان نے ایران پر پابندیوں سے استثنیٰ کا مطالبہ کر دیا ہے اور اسے یہ دیا جا رہا ہے لیکن ہم پر ایران کے حوالے سے پابندیوں کے تناظر میں نظر رکھی جاتی ہے۔ سینئر امریکی حکام کے خلیج اور عرب ملکوں میں ملاقاتیں کرنے کے کیا مقاصد ہیں، اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے۔ یمن میں جنگ کی سی کیفیت ہے وہاں خون خرابہ ہو رہا ہے، یمن تقسیم ہو چکا ہے، وہاں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، وہاں فضائی حملے جاری ہیں، لانچنگ پیڈز بن چکے ہیں جہاں سے سعودی عرب پر حملے کئے جاتے ہیں جس پر ہمیں تشویش ہے، ایک طرف سعودی عرب سے ہمارے تعلقات ہیں، دوسری جانب ایران ہمارا ہمسایہ ہے، خلیج اور مشرق وسطیٰ میں پاکستانی کما کر یہاں زرمبادلہ بھیجتے ہیں۔ خارجہ پالیسی ایسی چیز ہے جس پر اتفاق رائے ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے طویل المدت حکمت عملی اور اپروچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی خواہش تھی کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کریں، نواز شریف نے بھی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اس وقت ماحول نہیں تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پارلیمان اور عوام کی خواہشات کی آئینہ دار ہوگی۔ ہماری خواہش ہے کہ یمن میں صورتحال بہتر ہو۔ پاکستان کی پارلیمان نے فیصلہ کیا کہ غیر جانبداری کا کردار برقرار رکھیں گے، آج اسی وجہ سے دونوں ہماری بات کو اہمیت دے رہے ہیں، ایران کے وزیر خارجہ نے برملا کہا کہ ہم پاکستان کے ثالثی کے کردار پر مثبت ردعمل دیں گے۔ نواز شریف کے وقت میں ایک فریق نے رضامندی دی، دوسرے نے نہیں، سعودی عرب کی سوچ میں بھی اب مجھے تبدیلی نظر آ رہی ہے، وہ امریکہ جو مئی 2017ء میں خاص پیغام لے کر آیا اس امریکہ کا وزیر خارجہ اب سیز فائر اور سیاسی بات چیت کی بات کر رہا ہے، یو این سیکرٹری جنرل بھی دونوں فریقین کو میز پر بٹھانے کی بات کر رہے ہیں، یہ نئی صورتحال ہے جس میں ہم نے پہل کی ہے اور کہا ہے کہ ہم اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان نے افغان مسئلے کے حوالے سے جو بات کی تھی وہ ویژنری اور دوررس تھی، انہوں نے کہا کہ جب عمران خان نے کہا کہ افغان مسئلے کا حل بات چیت ہی ہے تو انہیں طالبان خان کہا گیا لیکن آج سب یہی اعتراف کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اپنا تعمیری کردار ادا کرے۔