اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے معروف صحافی جاوید چودھری نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں کہا کہ انگریز کے دور میں ایک ڈپٹی کمشنر نے دفعہ 144 لگا دی، وہ تحریکوں کا زمانہ تھا، چنانچہ لاہور کے شہری دفعہ 144 توڑ کر گورنر ہاؤس کے سامنے جمع ہو گئے، یہ خبر جب دہلی پہنچی تو وائسرائے نے لاہور کے انگریز ڈپٹی کمشنر کو معطل کیا دہلی بلوایا اور اسے وہاں سے لندن واپس بھجوا دیا،
وائسرائے کا کہنا تھا حکومت رٹ کا نام ہوتی ہے اور اگر ایک بار حکومت کی رٹ چیلنج ہو جائے تو پھر گورنمنٹ گورنمنٹ نہیں رہتی، اس کا کہنا تھا کہ حکومت کو کبھی وہ فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جسے وہ منوا نہیں سکتی اور ڈپٹی کمشنر نے یہی غلطی کی، یہ جب جانتا تھا کہ لوگ ہر صورت قانون کی خلاف ورزی کریں گے تو پھر اسے دفعہ 144 نہیں لگانا چاہیے تھی اور اگر لگا دی تھی تو پھر اسے ہر صورت اس پر عمل کروانا چاہیے تھا اور ڈی سی ان دونوں میں ناکام رہا، معروف صحافی جاوید چودھری نے کہا کہ میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اعظم سواتی دونوں ایڈمنسٹریشن کے اس اصول سے واقف نہیں تھے ورنہ یہ فارم ہاؤس کے پیچھے موجود خانہ بدوشوں اور اعظم سواتی کے ملازموں کے درمیان جھگڑے اور ایک گائے کے ایشو کو وزیراعظم اور سپریم کورٹ کے اختیارات کا مسئلہ نہ بناتے، معروف صحافی نے کہا کہ خانہ بدوشوں اور اعظم سواتی کے ملازمین کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، اعظم سواتی صاحب نے اس جھگڑے حکومت اور آئی جی کے درمیان لڑائی بنا دیا اور وزیراعظم صاحب نے ایس ایم ایس پر آئی جی اسلام آباد کو تبدیل کرکے اسے ایگزیکٹو اور جوڈیشری کا تنازعہ بنا دیا، اب صورتحال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم کے حکم کے بعد بھی آئی جی تبدیل نہیں ہوتا تو ایگزیکٹو کی رٹ ختم ہو جائے گی، کل سے کوئی بیورو کریٹ حکومت کی بات نہیں مانے گا، کوئی افسر وزراء کا فون نہیں سنے گا اور اگر یہ آئی جی تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت کی عزت ختم ہو جائے گی کل سے کوئی آدمی عدالت کے احکامات نہیں مانے گا، معروف صحافی نے کہا کہ آپ حکومت کی حماقت دیکھئے کہ اس نے گائے کے ایشو کو حکومت اور عدلیہ دونوں کی عزت کا مسئلہ بنا دیا۔