اسلام آ باد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی انصار عباسی اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک صاحب کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ اُن کے دو بیٹے تھے، دونوں بیٹوں کو بڑے نام والے مہنگے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھایا گیا۔ پھر جب یونیورسٹی کا وقت آیا تو اس کے لیے بھی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ دلوایا گیا۔ اس کے بعد بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجا گیا۔
والدین کی دلچسپی صرف اس حد تک تھی کہ پڑھائی کیسی ہو رہی ہے، رزلٹ کیسے آ رہے ہیں، بچوں کی انگریزی کیسی ہے بعد میں پتا چلا کہ ایک بیٹا جو بیرون ملک ہی رک گیا تھا، وہ دین سے ہی دور ہو گیا اور اتنا دور ہوا کہ اُس کا عقیدہ ہی مشکوک ہو گیا۔ اگر کسی کا بیٹا، بیٹی، بہن، بھائی اس طرح دین سے دور ہو جائے یا اپنا عقیدہ ہی کھو بیٹھے تو نہ صرف ایسے فرد کے لیے یہ بڑی تباہی کی بات ہے بلکہ والدین اور فیملی کے دوسرے ممبرز کے لیے بھی بہت بڑے دکھ اور رنج کی بات ہوتی ہے۔ خامیوں، گناہوں وغیرہ سے تو ہم میں سے کوئی بھی پاک نہیں لیکن ایمان اور عقیدہ کی حفاظت تو ہر مسلمان کے لیے لازم ہے کیونکہ ان کے گنوانے کا مطلب تباہی اور مکمل تباہی ہے۔ وقتاً فوقتاً لوگ بتاتے رہتے ہیں کہ کبھی کسی ایک تعلیمی ادارہ میں یا کبھی دوسرے تعلیمی ادارہ میں کوئی نہ کوئی ایسا استاد آ جاتا ہے جو طلبہ کو اسلامی عقائد سے دور کرنے کا سبب بن رہا ہوتا ہے۔ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور اس کا نقصان بہت بڑا ہے جس کی روک تھام کے لیے حکومت، تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ جہاں ایسی شکایت ملے اُس پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ والدین کو خصوصاً چوکنا رہنا چاہئے کہ اُن کے بچوں کو اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کیا پڑھایا جا رہا ہے۔ وہ صرف اس بات پر خوش ہوتے رہیں کہ بچے اچھے نمبر لے
کر پاس ہو رہے ہیں یا انگریزی بہت اچھی بولتے ہیں اور بہترین تعلیمی ادارے میں پڑھائی کر رہے ہیں تو یہ کافی نہیں۔ اس بات کی بھی فکر کریں کہ کہیں ہمارے بچے اپنے دین سے دور تو نہیں ہو رہے، اُن کے ایمان اور عقیدہ میں کوئی خرابی تو پیدا نہیں کر رہا۔ گاہے گاہے اپنے بچوں سے پوچھتے رہیں کہ اُنہیں کیا پڑھایا جا رہا ہے اور اگر کوئی ایسی شکایت ملے تو اس پر خاموشی اختیار
کرنے کے بجائے متعلقہ تعلیمی ادارہ کی انتظامیہ سے بات کریں اور شنوائی نہ ہونے کی صورت میں پُرامن احتجاج کا ہر طریقہ اپنائیں۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ذریعے اساتذہ کی اسکریننگ کرائے اور ایسے اساتذہ کو فارغ کیا جائے جو اسلام مخالف نظریات نوجوانوں کے ذہنوں میں انڈیلنے کے مذموم عمل میں مشغول ہیں۔چند روز قبل ختم نبوت کانفرنس
کے حوالے سے جنگ اخبار میں ایک خبر پڑھی جس میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کے داخلہ فارمز میں حلف نامۂ ختم نبوت کو شامل کیا جائے۔ اس مطالبہ کا پس منظر یہ ہے کہ حال ہی میں ایک تعلیمی ادارہ کے مسلم طلبہ کو قادیانی مرکز کا دورہ کروایا گیا۔ اس واقعہ کے حوالے سے چند روز قبل منعقد کی جانے والی ختم نبوت کانفرنس میں کہا گیا کہ سرکاری اور
نجی تعلیمی اداروں میں ختم نبوت کے خلاف جاری غیر قانونی سرگرمیاں لمحہ فکریہ ہیں۔ خبر کے مطابق کانفرنس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پاکستانی نوجوان نسل کا ایمان بچانے کے لیے ملک کے تمام تعلیمی اداروں کے داخلہ فارموں میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرے۔ میری رائے میں اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہو گی کہ اساتذہ کے لیے ختم نبوت کا حلف نامہ لازم کیا جائے
تاکہ کوئی غیر مسلم مسلمان کا روپ دھار کر طلبہ کو ورغلا نہ سکے اور نہ ہی مسلمان بچوں کے بنیادی دینی عقائد میں خرابی کا باعث بنے۔ خبر کے مطابق کانفرنس میں علماء کرام نے یہ بھی کہا کہ ہم اکابرین کے نقش قدم پر چلتے اور عدم تشدد کی پالیسی کو اپناتے ہوئے شب و روز قادیانیوں کی ہدایت کے لیے بھی دعائوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ حالات جس کی بنا پر مجلسِ ختم نبوت کو ایک بار پھر اس نازک لیکن انتہائی اہم معاملہ پر اپنی آواز اُٹھانا پڑی، اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں کسی ایسی سرگرمی کی اجازت نہ دے جو مسلمان طلبہ کے عقیدہ اور ایمان میں خرابی کا باعث بنے۔