اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) قدرتی مائع گیس ( ایل این جی) کے ٹرمینل کے آپریٹرز اینگرو ایلنجی اور پاکستان گیس پورٹ نے 2 وفاقی وزرا کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنا دفاع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی وزرا کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کمپنیوں کو زیادہ قیمت اور غیر قانونی طریقے سے یہ ٹھیکے ملے ہیں۔ اینگرو ایلنجی ٹرمینل پرائیوٹ لمیٹڈ
(ای ای ٹی پی ایل) کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی اس کانٹریکٹ کو دوبارہ کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے۔ واضح رہے کہ ایل این جی کی مدد سے بجلی کی فی یونٹ قیمت 9.9 روپے آرہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں فرنس آئل سے بجلی کی فی یونٹ قیمت 15.5 روپے ہے۔ اپنے بیان میں اینگرو کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی نے ایک شفاف عمل کے تحت حکومت کے ساتھ 15 سال کا معاہدہ کیا ہوا ہے، اور اس کے بعد ہی کمپنی نے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ اینگرو کے مطابق ’حکومت کے پاس اس معاہدے کو دوبارہ کھولنے یا اس کی شرائط و ضوابط کو ازسرِنو تبدیل کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے اور نہ ہی یہ اختیار کمپنی کے پاس ہے‘۔ دوسری جانب پاکستان گیس پورٹ لمیٹڈ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایل این جی ٹرمینل کو چلانے کا معاہدہ شفاف طریقے سے حاصل کیا ہے اور وہ اس کی وضاحت نئی حکومت کو دینے کو تیار ہیں واضح رہے کہ وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری اور وزیرِ پیٹرولیم غلام سرور خان نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ایل این جی منصوبوں سے متعلق کیے گئے ٹھیکوں پر نظرثانی کرکے گی اور الزام عائد کیا تھا کہ یہ ٹھیکے شفاف طریقے سے کمپنیوں کو نہیں دیے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی 9 ماہ کے دوران اینگرو نے 44 فیصد جبکہ پاکستان گیس پورٹ نے 22.74 فیصد ریٹرن اون ایکوٹی (آر او ای) حاصل کیا تھا جو آئل اور گیس سیکٹر میں 15 سے 17 فیصد معمول کے مطابق منافع سے کئی زیادہ ہے۔ تاہم اس حوالے سے اینگرو کا کہنا ہے حصص کنندہ گان کو نرخ کی بنیاد پر ایسے منصوبوں کے منافع کا جائزہ لینے کے لیے آر او ای درست بینچ مارک نہیں ہے۔