ہفتہ‬‮ ، 16 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

سینیٹ اجلاس، شہباز شریف کی گرفتاری پرشدید احتجاج،فواد چودھری نے ایک بار پھر کھری کھری سنادیں،اپوزیشن کا انتہائی اقدام

datetime 8  اکتوبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(این این آئی) سینیٹ میں اپوزیشن اتحاد نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف و صدر مسلم لیگ (ن)محمد شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف شدید احتجاج کیا، مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن اتحاد کے سینیٹرز نے بازوؤں پر کالی پٹیاں باند ھ کر اجلاس میں شرکت کی ۔ پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین محمد صادق سنجرانی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔

اجلاس کے آغاز پر قائد حزب اختلا ف راجہ ظفرالحق نے چیئرمین کی توجہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف و صدر مسلم لیگ (ن) محمد شہباز شریف کی گرفتاری کی جانب دلواتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس پر ایوان میں اپوزیشن ارکان اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں ، اس لئے ایجنڈے کو التواء میں ڈال کر اس پر بحث کرائی جائیں۔ چیئرمین کی طرف سے اظہار خیال کی اجازت ملنے پر قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفرالحق نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کیساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ قابل مذمت ہے،اچانک ایک ایشو پر بلایا گیا اور دوسرے ایشو پر گرفتارکرلیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ محمد شہباز شریف کی گرفتاری کا دن جمہوریت کیلئے سیاہ دن تھا،اس سے صرف مسلم لیگ (ن)کو نہیں تمام جماعتوں سمیت پوری قوم کو شدید رنج پہنچا ہے،اس فعل نے سارے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل سے اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت بھی مخدوش ہو گئی ہے۔سینیٹر محمد جاوید عباسی نے کہا کہ پارلیمان کی تاریخ میں اس طرح کا دوسرا واقعہ نظر نہیں آیا کہ اپوزیشن لیڈر کو ہی گرفتار لیا جائے،کوئی بھی احتساب کیخلاف ہے اور نہ ہی ڈرتا ہے مگر جو طرز عمل اختیار کیا گیا وہ قطعاً درست نہیں،جب حکومتی وزیر خود کہیں کہ مزید گرفتاریاں ہوں گی تو سوالات تو اٹھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ نیب کچھ لوگوں کو انکوائریوں کی بنیاد پر گرفتارکرتی ہے اور کچھ کیخلاف ریفرنس ہونے کے باوجود گرفتاریوں سے معذور ہے۔

انہوں نے کہاکہ جس دن محمد نواز شریف کے خلاف فیصلہ آیااسی رات کو کچھ وزیروں نے کہا تھا کہ اگلی باری محمد شہباز شریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کیلئے پارلیمنٹ اور سپیکر کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ شہباز شریف صرف پاکستان کی نہیں بلکہ عالمی سطح کے لیڈر ہیں، ان کی گرفتاری سے بین الاقومی دنیا میں پاکستان کا منفی امیج سامنے آیا،ان کے مخالف بھی انہیں ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر مانتے ہیں،

وزیراعظم صرف تحریک انصاف کا نہیں پورے ملک کا ہوتا ہے،شہباز شریف کی گرفتاری سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے۔سینیٹر غوث محمد نیازی نے کہا کہ شہباز شریف کو جس انداز میں گرفتار کیا گیا وہ پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے،پوری دنیا میں ان کی گرفتاری کی ہیڈ لائنز لگیں،تاثر ابھر رہاہے کہ ملک کی ترقی کیلئے کام کرنا جرم ہے،چین نے خود کہا کہ پنجاب جیسی ترقی چین میں بھی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سپر مارشل لاء ہے،وزیراعظم نے ایف آئی اے اور آئی بی کو استعمال کرنے کا اشارہ دیا ہے۔

سینیٹر جہانزیب جمال دینی نے کہا کہ شہباز شریف کی گرفتاری کی روایت درست نہیں، اس گرفتاری کی ضرورت ہی نہیں تھی جن کو گرفتاری کا خوف نہیں ان کو گرفتار کیاگیا،بلوچستان میں 20سالوں میں بہت پیسے آئے مگر اس کا حساب کوئی نہیں،وہاں نیب حرکت میں کیوں نہیں آتی،کیا بلوچستان کی سرحد پر باڑ لگی ہوئی ہے؟۔سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ محمد شہباز شریف نے پنجاب کی تقدیر بدلی،وہ 18,18گھنٹے کام کرتے تھے،اپوزیشن لیڈر کو جس طریقے سے گرفتار کیا گیا اور جس انداز میں عدالت میں پیش کیا گیا،

ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ دہشتگرد ہیں،یہ قابل مذمت ہے۔ بتایا جائے کہ کس وجہ سے انہیں بکتر بند گاڑی میں لایا گیا،ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیاہے۔ انہوں نے کہاکہ نیب آزاد ادارہ نہیں،ایک ملک کے وزیر اعظم کو ٹیلی وژن پر شہباز شریف کی گرفتاری دیکھنے کے علاوہ کوئی اور کام نہیں،ہم نے کارکنوں کو کال نہیں دی، جو آئے تھے وہ اپنی مرضی سے آئے تھے، حکومت اس دن سے ڈرے جس دن ہم کارکنوں کو کال دیں گے،پھر پورا ملک مفلوج ہو جائے گا ۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو جس انداز سے گرفتار کیا گیا وہ قابل مذمت ہے،

نیب آرڈینس میں ترمیم کی ضرورت ہے،نیب اپنے اختیار کا غلط استعمال کررہا ہے ۔سینیٹر سلیم ضیا نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر کو صاف پانی کیس میں بلایا گیاجس کیلئے شہباز شریف پوری فائل لیکر کر اور وکلاء سمیت تیاری کر کے گئے تھے وہاں پہنچ کر انہیں کسی اور کیس میں گرفتار کرلیا گیا،یہ اس شخص کیلئے کیا جا سکتا ہے جو آدی مجرم ہواور پیشیوں پر نہ آئے ۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ احتساب ہمیشہ شفاف لوگ کرتے ہیں،غیر شفاف انتخابات کے نتیجے میں آنی والی حکومت کیسے احتساب کرسکتی ہے؟،غیر جمہوری قوتیں موجودہ حکومت سے کام لینا چاہتی ہیں،

وہ حکومت سے دشمن اور کرپشن کیخلاف کام نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور اپوزیشن کیخلاف کام لینا چاہتی ہے۔سینیٹر عطاء الرحمن نے کہاکہ پہلی مرتبہ ایوان کا تقدس پامال کیا گیا، وزیر اعظم آج بھی وہی زبان استعمال کررہے ہیں جو کنٹینر پر بیٹھ کر کیا کرتے تھے، عمران خان وزیراعظم کم غنڈے زیادہ لگ رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ عمران خان وزیراعظم کم دہشتگرد زیادہ لگ رہے تھے،وہ وزیراعظم کم اپوزیشن لیڈر زیادہ لگ رہے تھے، عمران خان وزیراعظم کم یو ٹرن زیادہ لگ رہے تھے۔اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر عطاء الرحمن کی طرف سے وزیراعظم کیلئے استعمال کئے گئے الفاظ کو کارروائی سے حذف کروا دیا۔

حکومتی اراکین نے مولانا عطاء الرحمن سے اپنے الفاظ کو واپس لیتے ہوئے معافی مانگنے کا مطالبہ کیاتاہم مولانا نے الفاظ حذف ہونے کے بعد معافی کی ضرورت نہیں کہتے ہوئے معافی معانگنے سے انکار کردیا ۔سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ چیف جسٹس کے مطابق نیب میں بہت گند ہے،اگر اعلیٰ عدلیہ کی نظر میں نیب کے بارے میں ایسی رائے ہو تو یہ دھوکہ ہو گا کہ نیب احتساب کریگی۔اجلاس میں حکومتی ارکان نے صرف اپوزیشن ارکان کی جانب سے اظہار خیال پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایوان میں صرف ایک طرف کا نقطہ نظر سامنے آرہا ہے ، اس لئے حکومتی نقطہ نظر بھی ساتھ ساتھ سامنے آنا ضروری ہے

جس پر چیئرمین نے حکومتی بنچوں کو اظہارائے کا موقع دینے کا فیصلہ کیا جس پر اپوزیشن ارکان نے شور مچاتے ہوئے کہا کہ جس نے پہلے بٹن دبایا ہے اس کو پہلے موقع ملنا چاہئے، حکومت کی طرف سے صرف ایوان کے ممبران بولیں گے۔قائد ایوان سید شبلی فراز نے کہا کہ یہ ایوان صر ف اپوزیشن کا نہیں حکومتی اراکین کا بھی ہے،یہ ایوان صرف اپوزیشن کی وجہ سے چل رہا ہے تو حکومتی ارکان کو آنا ہی نہیں چاہیے،یہ جمہوری اصول نہیں کہ صرف ایک سائیڈ اپنے نکتہ نظر پیش کرتی رہے اور ہماری طرف سے کوئی نکتہ نظر پیش نہ کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے کوئی اور نہیں بولے گا صرف چودھری فواد حسین ہی بات کرینگے ۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا سخت زبان استعمال کرنے کا تک تو بنتا ہے، مگر کسی اور پارٹی کی جانب سے سخت لہجہ استعمال کرنا ’ بے گانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ ‘والی مثال ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ ایشو پارلیمنٹ میں اٹھانا اچھا اقدام ہے،ہر کسی کو اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اپوزیشن یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ حکومت نے اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا موقف اس سے مختلف ہے، سیاسی انتقام کو ڈھال بنانا ہماری تاریخ ہے،ہم نے پہلے بھی سیاسی انتقام کی مذمت کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جس بے دردی اور جس انداز کیساتھ اداروں کو کھوکھلا کیا گیا ہے اس کو بھی سامنے آنا چاہئے ۔

انہوں نے کہاکہ اپوزیشن اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کے بعد عمدہ بہانہ بنا کر واک آؤٹ کر جائیگی۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے، عوام کو دونوں رخ کا پتہ چلنا چاہیے، حکومتی رخ بھی سامنے آنا چاہئے۔وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات چودھری فواد حسین نے کہا کہ یہ طبقہ ڈرا ہوا ہے،ہم ان کی طرح نہیں کہ نیب میں سیف الرحمن جیسے لوگوں کو تعینات کریں گے،ان کو یاد نہیں کی شریف خاندان کیخلاف ان کی اپنی حکومت میں کیسز بنے تھے،شہباشریف کے خلاف156 ارب روپے کرپشن کے کیس ہیں،چوروں ،ڈاکوؤں کی احتساب کی بات کی جائے تو ان کی زبان خشک ہو جاتی ہے،اگر احتساب نہ ہو تو ملک کیسے آگے بڑھے گا،شاہ محمود نے بالکل درست کہا تھا کہ یہ اپنے رونا رو کر بہانہ کر واک آؤٹ کر جائیں گے۔

بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری کو حکومتی نقطہ نظر پیش کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن ارکان نے احتجاج شروع کیا اور پہلے اپوزیشن ممبران یا حکومتی سینیٹرز کو بولنے کی اجازت کا مطالبہ کیاجس پر چیئرمین صادق سنجرانی نے کہا کہ یہ میری مرضی ہے، فواد صاحب آپ جاری رکھیں جس پر اپوزیشن نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کیا، اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد بھی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنی تقریر جاری رکھی تاہم دوران تقریر سینیٹر اعظم موسیٰ خیل کی جانب سے کورم کی نشاندہی کی گئی جس پر چیئرمین نے گنتی کا حکم دیا اور کورم پور ا نہ نکلا اور پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائیں گئیں۔چیئرمین نے وفاقی وزیر اعظم سواتی اور سینیٹرمحمد علی سیف کو اپوزیشن کو منانے کا ٹاسک دیدیا۔ اس کے بعد چودھری فواد حسین نے بھی اپوزیشن کو منانے کی پیشکش کی جس پر چیئرمین نے انہیں قائد ایوان کے ہمراہ جانے کی اجازت دی تاہم اپوزیشن نے ایوان میں آنے سے انکار کر دیا۔ جس پر چیئرمین نے سینیٹ کا اجلاس بدھ کی سہ پہر 3بجے تک ملتوی کردیا۔

موضوعات:



کالم



بس وکٹ نہیں چھوڑنی


ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…