لاہور(سی پی پی)سپریم کورٹ پاکستان نے منرل واٹر کمپنی کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیتے ہو ئے 15 روز میں فرانزک آڈٹ کی رپورٹ طلب کر لی۔لاہور رجسٹری میں منرل واٹر کمپنیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے کی،کمپنی کے وکیل اعتزاز احسن نے استدعا کی کہ فرانزک آڈٹ ہماری رپورٹ آنے کے بعدکیاجائے،سپریم کورٹ نے اعتزازاحسن کی استدعامستردکردی اوربڑی منرل واٹرکمپنیوں کے پانی کے نمونے چیک کرانے کاحکم دیدیا۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت اس موقع پرکہاکہ 15 دن میں فرانزک آڈٹ کی رپورٹ پیش کی جائے،جس کے بعددیکھاجائے گا کہ کمپنیوں کوپانی کی کتنی ادائیگی کرنی چاہئے۔بنچ کے دوسرے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کمپنیاں صرف منافع ہی کمارہی ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پانی ایساایشو ہے جسے ہرگزنظراندازنہیں کیاجاسکتا،کیس کے بعدکمپنیاں مناسب قیمت اداکریں گی، ملک کو سرمایہ کاری چاہئے ،اعشاریہ 2 پیسے فی لیٹربہت کم ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں میں احساس پیداہوگیاہے کہ اب معاملات کو پوچھاجاسکتاہے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اب بڑی بڑی سوسائٹیوں کانمبرآناہے،بڑی سوسائٹیاں قیمت پوری وصول کرتی ہیں لیکن حکومت کوایک پیسہ نہیں دیتیں۔اب وقت آگیاقوم نے جوہمیں دیااسے لوٹاناہے،لوگوں میں احساس پیداہوگیاہے کہ اب انہیں پوچھا جاسکتاہے۔آئندہ ہفتے سوسائٹیوں میں پانی کی فراہمی سے متعلق سماعت ہوگی۔اس سےپہلے پرائیوٹ ہسپتالوں میں مہنگے علاج کیخلاف کیس کی سماعت میں چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثارنے ڈاکٹرزہسپتال انتظامیہ کوطبی اخراجات پرنظرثانی کرنے کا حکم دے دیا۔پرائیوٹ ہسپتالوں میں مہنگے علاج کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں دورکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں کی۔اس موقع پر ڈاکٹرز ہسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسرغضنفر علی شاہ عدالت کے روبروپیش ہوئے ۔
چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے غضنفر علی شاہ کیساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو آپ سے شکایات ہیں آپ مہنگا علاج کرتے ہیں،پی ایم ڈی سی نے علاج کے جوریٹ طے کیے اس سے زیادہ کوئی وصول نہیں کرے گا،ڈاکٹر صاحب آپ لوگوں کی خدمت نہیں کرسکتے توہسپتال بند کردیں،جس پر سی ای او ڈاکٹرز ہسپتال کا کہنا تھا کہ آپ کی مرضی ہے توبند کر دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم کے باوجود اضافی پیسے کیسے وصول کرسکتے ہیں۔
آپ مریضوں سے ایک لاکھ روپے وصول کرتے ہیں،آپ کودل کے اسٹنٹ ڈالنے کے لئے ایک لاکھ روپے تک وصول کرنے کا حکم دیا تھا،ایک مریض کا30دن کا بل آپ نے 40لاکھ روپے بنادیا،غریبوں کوبھی اچھا علاج کروانے دیں۔جس پرسپریم کورٹ نے ڈاکٹرزہسپتال انتظامیہ کوطبی اخراجات پرنظرثانی کرنے کا حکم دے دیا۔ڈی جی ایل ڈی اے نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ڈاکٹرزہسپتال نے تجاوزات قائم کررکھی ہیں،ایک کینال کے پلاٹ پرڈاکٹرزہسپتال کمرشل سرگرمیاں کررہے ہیں،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نظر ثانی کریں اپنے فیصلوں پرورنہ عدالت فیصلہ کرے گی۔