اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کو دفتری زبان قرار نہ دینے کے مقدمے میں وفاقی حکومت سے 24 گھنٹوں میں جواب طلب کر تے ہو ئے حکم دیا ہے کہ اس عدالتی حکم کو چیف ایگزیکٹو کے سامنے رکھا جا ئے جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیںکہ قومی زبان اردو کے حوالے سے آئین پر عملدرآمد نہ کرانے کی تمام تر ذمہ داری چیف ایگزیکٹو پر عائد ہوتی ہے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے آئین سے بالاتر کوئی نہیں ، چیف ایگزیکٹو سمیت کسی کو بھی بلانا پڑا تو عدالت کے کٹہرے میں بلائیں گے ۔ مذاق بند کیا جائے اگر ہم حکم جاری کر سکتے ہیں تو اس پر عملدرآمد کرانا بھی ہمیں آتا ہے بہت ہو گئی ۔ وفاقی حکومت جواب داخل کرائے بصورت دیگر بدھ کو حتمی حکم جاری کر دیں گے ۔ ذمہ دار افسران اپنے ادارے کی عظمت ایسے نہ گرائیں ۔ حکومت خود آئین پر عمل نہیں کرتی عوام سےلٹھ کے ذریعے عمل کرانا چاہتی ہے جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر قومی زبان کے حوالے سے وفاقی حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی ہے تو پھریہ ذمہ داری کس کی ہے جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل عبدالرشید اعوان نے عدالت کو بتایا ہے کہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن سیکرٹری اطلاعات سمیت کوئی بھی عدالت کے حکم پر جواب دینے کو تیار نہیں ہے ۔ باہار رابطہ کیا ہے مگر تاحال کوئی جواب نہیں مل رہا ہے ۔ عدالت خود حکم جاری کرے انہوں نے یہ جواب جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو منگل کے روز پیش کیا ہے جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ لگتا ہے کہ حکومت آئین پر خود عمل کرنا نہیں چاہتی اور عوام پر لٹھ لے کر کھڑی ہے کہ وہ اس پر عمل کرے ۔ آج بدھ کو بتائیں گے کہ عدالت کس کو طلب کرے گی اور قطعی حکم جاری کرے گی ۔ کسی کو آئین و قانون کا مذاق نہیں اڑانے دیں گے ۔ 4 سے 5 سماعتیں ہو چکی ہیں حکومت مسلسل ٹالتی آ رہی ہے اب یہ کام نہیں چلے گا ۔ عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ لاءافسر کا کہنا ہے کہ ان کی بہترین کاوشوں کے باوجود کوئی بھی حکومت افسر جواب دینے کو تیار نہیں ہے ۔ عدالت یہ سماعت بدھ کے روز تک ملتوی کر رہی ہے تاکہ وفاقی حکومت اس کا جواب داخل کرا سکے ۔ اگر جواب داخل نہیں ہوتا تو پھر عدالت اپنے حکم جاری کرے گی ۔ واضح رہے کہ کوکب اقبال ایڈووکیٹ نے اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کی درخواست دائر کر رکھی ہے ۔