اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی اعزاز سید اپنے آج کے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ادھر اپوزیشن جماعتیں بھی کسی سنجیدہ احتجاج پر متفق نہیں۔ مجھے کسی ذمہ دار نے بتایا کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بلاول بھٹو کو پیغام بھجوایا تھا کہ اپوزیشن کےارکان قومی اسمبلی کا حلف نہیں لیں گے اگر پیپلزپارٹی کے ارکان بھی قومی اسمبلی کا حلف نہ اٹھا ئیں
تو اپوزیشن مل کر تحریک انصاف کی حکومت کے لئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ بلاول نے یہ تجویز مسترد کردی۔ کرتے بھی کیوں نہ والد آصف علی زرداری اور پھوپھی فریال کو مزید مصیبت میں کیسے ڈالتے۔ وہ پہلے ہی جعلی اکائونٹس کے کیس میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ کیس میں خود بلاول کا نام بھی موجود ہے کیونکہ کیس میں زیرتفتیش ایک کمپنی کے مبینہ سربراہ وہ خود بھی ہیں۔اس سارے معاملے کے بعد جب مولانا فضل الرحمان کی کوششوں سے اپوزیشن جماعتیں آٹھ اگست کو شاہراہ دستور پر اکٹھی ہوئیں تو حسب توقع موقع پر مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف بھی غائب تھے اورآصف علی زرداری بھی کہیں نظر نہ آئے۔دراصل اس ساری تحریک کے اصل روح رواں مولانا فضل الرحمان ہیں جو اپوزیشن جماعتوں کو دھاندلی کے ایجنڈے پر متفق کرنا چاہتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی جیسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ شامل ہیں مگر بڑی جماعتوں کے بڑے مسائل ہیں اور فی الحال اپوزیشن کا اتحاد بنتا نظر نہیں آرہا۔واضح رہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے ضمانت کرانےاور پیش ہونے سے انکار کر دیا ہے جبکہ ان کی بہن فریال تالپور نے ضمانت کروا لی ہے۔ معروف صحافی و سینئر تجزیہ نگار حامد میر نے ایک پروگرام میں بات کرے ہوئے کہا ہے کہحامد میر نے کہا کہ
سابق صدر آصف علی زرداری اپنی گرفتاری کی بات پر کہتے ہیں کہ اگر کسی مائی کے لال میں ہمت ہے تو آئے مجھے گرفتار کرے اور مجھے اڈیالہ جیل میں ڈالے۔ میں بھی کافی بیمار ہوں لیکن میں کبھی کسی کو نہیں کہوں گا کہ مجھے پمز بھیجو، میں کبھی بھی پمز اسپتال میں اپنا علاج نہیں کرواؤں گا۔ معروف صحافی حامد میر کا مزید کہان تھا کہ آصف زرداری نے کہا ہے کہ وہ نہ
ا س کیس میں ضمانت کروائیں گے اور نہ ہی پیش ہو نگے جس نے پکڑنا ہے پکڑ لے وہ پیش نہیں ہونگے ۔ایف آئی اے میں پیش نہ ہونے پر ایف آئی اے نے سپریم کورٹ میں جانے کا فیصلہ کیا تھا جس پرجب معاملہ چیف جسٹس کی عدالت میں پیش ہوا تو چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے اور پولیس کولوگوں کو دھمکانے پر سرزنش کرتے ہوئے پیپلزپارٹی سربراہ اور ان کی ہمشیرہ کو ایف آئی اے سے تعاون کرنے کا حکم دیا تھا۔