اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)امریکہ کے ہاتھوں قتل ہونیوالے القاعدہ لیڈر اسامہ بن لادن کی والدہ منظر عام پر آگئیں، 17سال بعد خاموشی توڑتے ہوئے سنسنی خیز انکشاف کر دئیے۔غیر ملکی جریدے گارڈین کے نمائندے سے خصوصی نشست میں عالیہ غنیم کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن انہیں اپنے بیٹوں میں سب سے زیادہ عزیز تھا مگر وہ راستہ بھٹک گیا جس کے ذمہ دار اس کے اردگرد موجود
لوگ تھے جنہوں نے اس کا برین واش کیا۔عالیہ غنیم سعودی عرب کے شہر جدہ میں اپنے دو بیٹوں احمد ، حسن اور اپنے دوسرے شوہر محمد العطاس کے ہمراہ ایک عالی شان محل نما گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ عالیہ غنیم نے اسامہ بن لادن کی زندگی کے گوشوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ اسامہ نہایت اچھا اور سلجھا ہوا بچہ تھا جو مجھ سے بے حد پیار کرتا تھا ۔انہوں نے بتایا کہ اسامہ 1957میں سعودی شہر ریاض میں پیدا ہوا، وہ جب تین سال کا تھا تو انہوں نے اپنے شوہر سے طلاق لیکر محمد العطاس جو ان کے موجودہ شوہر ہیں سے شادی کر لی۔ محمد العطاس ہی نے اسامہ کی کفالت کی ۔ عالیہ نے بتایا کہ اُسامہ بن لادن نے 20 سال کی عمر میں کچھ ایسے لوگوں سے ملاقات کی جنہوں نے اس کا برین واش کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اُسامہ بچپن میں تھوڑا شرمیلا تھا لیکن پڑھائی میں کافی تیز تھا۔20 سال کی عمر میں اُسامہ شاہ عبد العزیز یونیورسٹی میں اکنامکس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ، اس یونیورسٹی نے میرے بیٹے کو بدل کر رکھ دیا اور وہ ایک یکسر مختلف انسان بن گیا۔اسی یونیورسٹی میں اُسامہ عبد العظام نامی ایک شخص سے ملا، جسے کچھ عرصہ بعد سعودی عرب سے جلا وطن کر دیا گیا تھا لیکن بعد ازاں وہ اُسامہ کا روحانی پیشوا بن گیا۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے اُسامہ کا برین واش کر دیا تھا ، ان کے پاس اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے کافی سارا پیسہ بھی تھا۔
میں ہمیشہ اُسامہ کو ایسے لوگوں سے دُور رکھنے کی ہدایت کرتی تھی۔واضح رہے کہ عبدالعظام معروف فلسطینی جہادی تھے جو کہ روس کے خلاف مزاحمت کے دوران افغانستان آگئے تھے اور پشاور میں ایک بم دھماکے میں ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ عالیہ غنیم کا کہنا تھا کہ وہ مجھے کبھی نہیں بتاتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیونکہ وہ مجھ سے بے حد محبت کرتا تھا۔ 80 کی دہائی کے آغاز میں ہی
اُسامہ رُوسی قبضے کے خلاف جنگ لڑنےکے لیے افغانستان روانہ ہوگیا۔اسامہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ اسامہ کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، اُسامہ نے اپنا سارا پیسہ افغانستان میں لگا یا ۔ اس نے یہ پیسہ خاندانی کاروبار سے چرایا تھا۔ عالیہ غنیم کا کہنا تھاکہ میرے ذہن میں کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا کہ میرا بیٹا جہادی بھی بن سکتا ہے۔ اور جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں بہت پریشان ہو گئی،
میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسا کچھ بھی ہو۔اس موقع پر اسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائی حسن نے گارڈین کے نمائندے کو بتایا کہ اسامہ بن لادن کی خاندان اور حکومتی سطح پر نہایت پذیرائی تھی وہ سعودی عرب میں ایک قابل اور عزت دار شخص کے طور پر جانے جاتے تھے اور لوگ ان کی بہت عزت کرتے تھے مگر پھر اسامہ کے جہادی بنتے ہی سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ اُسامہ کے خاندان کا کہنا تھا کہ
ہم نے اُسے 1999ء میں آخری بار دیکھا تھا ،ہماری ملاقات اس سے افغانستان کے صوبے قندھار میں موجود اس کے مستقر میں ہوئی تھی۔اسامہ کی والدہ نے اپنے بیٹے سے آخری ملاقات کا حال سناتے ہوئے بتایا کہ یہ جگہ ائیر پورٹ کے قریب تھی جہاں سے انہوں نے روسی قبضہ ختم کیا تھا۔ ہمیں دیکھ کر اُسامہ بے حد خوش ہوا تھا۔ ہم جتنے دن بھی وہاں رہے اُس نے ہمیں سیر کروائی ،
اُسامہ نے ایک جانور کا شکار کیا اور ہم سب نے مل کر کھانا کھایا۔اسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائی احمد کا کہنا تھا کہ ہماری والدہ کو اسامہ کی موت کا یقین نہیں آتا، وہ ان سے بہت محبت کرتی ہیں انہوں نے کبھی اُسامہ کو جہادی کے طور پر نہیں دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اسامہ کو قصور وار ٹھہرانے کے بجائے اس کے اردگرد موجود لوگوں کو سب چیزوں کا ذمہ دار مانتی ہیں۔
احمد نے بتایا کہ /11 حملے کے بعد ہم سکتے میں آگئے تھے، ہمیں اُسامہ سے تعلق پر شرمندگی ہونے لگی، بھیانک نتائج کا سوچ کر شام ،، لبنان ، مصر اور یورپ میں مقیم ہمارے خاندان کے تمام افراد واپس سعودی عرب آ گئے۔ہمارے خاندان کے سابق سعودی ولی عہد محمد بن نائف سے اچھے تعلقات تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کی اہلیہ اور بچوں کو سعودی عرب واپسی کی اجازت دی ۔
وہ شہر میں تو گھوم سکتے ہیں تاہم ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد ہے۔ اسامہ کی والدہ عالیہ غنیم نے اسامہ کے بیوی بچوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری اکثر اُسامہ کے خاندان سے بات ہوتی ہے، وہ پاس ہی رہتے ہیں۔اسامہ کے جہادی بیٹے حمزہ سے متعلق اسامہ کے سوتیلے بھائی حسن کا کہنا تھا کہ اُسامہ بن لادن کے 29 سالہ بیٹے حمزہ کو ہم نے یہ کہتے سُنا تھا کہ
میں اپنے والد کی موت کا بدلہ لوں گا۔ اگر حمزہ میرے سامنے ہوتا تو میں اس کو خبردار کر دیتا اور اُسے سمجھاتا کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لے اور اپنے والد کے نقش قدم پر نہ چلے ، اللہ کی ہدایت حاصل کرے۔خیال رہے کہ عالیہ غینم نے کئی سال اُسامہ سے متعلق بات نہیں کی ۔ اُسامہ کے دو دہائیوں تک القاعدہ لیڈر رہنے اور امریکہ اور واشنگٹن پر حملے کے 9 سال کے بعد پاکستان میں اُسامہ بن لادن کی موت تک عالیہ نے کبھی اپنے بیٹے اُسامہ بن لادن کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔یہ پہلا موقع ہے جب عالیہ غنیم اور ان کے خاندان کے افراد نے گارڈین کے نمائندے سے اسامہ بن لادن سے متعلق گفتگو کی ہے۔