لندن میں حسین نواز کے گھر پر ان کے کچھ ہم وطنوں کے حملے کی خبر سن کر مجھے کچھ اندیشہ ہائے دور دراز کچھ مزید قریب ہوتا نظر آتا ہے۔ جب سے پچیس جولائی کے الیکشن کو ملتوی کرنے کی دھمکی نے دم توڑا ہے کچھ لوگ بوکھلاہٹ میں ایسی حرکتیں کر رہے ہیں، جن سے کسی اور کی نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں کی بدنامی ہو رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف اور ان کے کچھ مدد گار 25 جولائی کے الیکشن نہیں چاہتے تھے۔
وہ انتخابات کو اکتوبر یا نومبر تک ملتوی کرانے کے حامی تھے لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار نے واضح کر دیا کہ آئین میں الیکشن کے التواء کی گنجائش نہیں۔دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے الیکشن ملتوی کرنے کی کسی بھی مہم کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی سے کہا گیا تھا کہ جب بھی نئی حکومت بنے گی آپ کو حکومت میں شامل کیا جائے گا، لیکن پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے گناہ بے لذت سے معذرت کر لی، جس کے بعد آصف علی زرداری کے خلاف گھیرا تنگ ہونے لگا۔جب زرداری صاحب کے قریبی ساتھیوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں تو تحریک انصاف کے چند رہنماؤں نے مجھ سے کہا کہ پچیس جولائی کے بعد ہمارے ساتھ بھی وہی ہو سکتا ہے، جو آصف زرداری کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ ہمارے لیڈر عمران خان کو ’یس سر‘ کہنے کی عادت نہیں۔ یس سر تو کوئی جیپ سوار ہی کہہ سکتا ہے اس لیے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہیں ایسے حالات پیدا نہ ہو جائیں کہ 25 جولائی کے بعد ہم ایک دوسرے کو یہ کہتے نظر آئیں کہ یہ قوم جمہوریت کے قابل نہیں۔حسین نواز کے گھر پر حملہ لندن میں ہوا ہے لیکن یہ اُس مائنڈ سیٹ کا ترجمان ہے، جو پاکستان کی سیاست پر ہر جائز و ناجائز طریقے سے غلبہ قائم کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔
اس حملے کے بعد مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے حامیوں نے ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر جو زبان استعمال کی، اسے پڑھ کر مجھے وہ کچھ یاد آ گیا، جو کچھ دن پہلے کراچی کے منتخب میئر وسیم اختر نے مجھے گوجر نالے کے علاقے میں دکھایا تھا۔یاد رہے کہ کچرا صرف کراچی میں نہیں ہے۔ لاہور بھی کچرے سے بھرا ہوا ہے۔ اندرون لاہور اور نابہ روڈ سے ملحقہ علاقوں میں تو اس قدر کچرا اور بدبو ہے کہ گزشتہ ہفتے مجھے ان علاقوں میں ابکائیاں آنے لگیں اور رہی سہی کسر پشاور میں پوری ہو گئی۔
پشاور میں رحمان بابا کے مزار کے اردگرد گنجان آباد علاقوں میں کچرے کے ڈھیر دیکھ کر مجھے عمران خان پر غصہ نہیں بلکہ ہنسی آئی۔ جس طرح لاہور کی ضلعی حکومت بدستور (ن) لیگ کے پاس ہے اُسی طرح پشاور کی ضلعی حکومت بھی بدستور تحریک انصاف کے پاس ہے لیکن ان دونوں کی کارکردگی کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم والوں سے مختلف نہیں۔لاہور اور پشاور والوں نے صرف اپنی غریب اور متوسط آبادیوں میں نہیں بلکہ اپنی سوچ کے چوکوں اور چوراہوں پر بھی کچرا پھیلا رکھا ہے، جو سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔
جس طرح کراچی کے کچرے کی ذمہ دار پیپلز پارٹی ہے، اُسی طرح لاہور کے کچرے کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) اور پشاور کے کچرے کی ذمہ داری تحریک انصاف ہے۔ لیکن ایک کچرا وہ بھی ہے، جو ہماری سوچ میں پھیل چکا ہے۔ یہ کچرا غریب اور متوسط بستیوں میں نہیں بلکہ اس طبقے کی سوچ میں نظر آتا ہے، جن کے ہاتھوں میں مہنگے آئی فون دکھائی دیتے ہیں۔ اس طبقے نے دو سال پہلے بھی لندن میں حسین نواز اور جمائما کے گھروں کے سامنے مظاہرے کیے اور اب تو حسین نواز کے گھر پر حملہ ہی کر دیا۔
کیا حسین نواز کے گھر کے سامنے گالم گلوچ اور غنڈہ گردی کرنے والوں کو پاکستان کے غریب اور مظلوم عوام کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ یہ غنڈہ گردی کرنے والے جہانگیر ترین اور علیم خان کے نمائندے ہو سکتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان اور نذر گوندل کے نمائندے ہو سکتے ہیں۔ مصطفٰی کھر اور لیاقت جتوئی کے نمائندے ہو سکتے ہیں لیکن کسی غریب اور مظلوم کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ حسین نواز کے گھر پر حملہ ویسی ہی حرکت ہے جیسی حرکت کچھ دن پہلے کراچی میں بلاول بھٹو زرداری پر پتھراؤ کی صورت میں کی گئی تھی۔
کچھ ذمہ دار لوگوں کا کہنا ہے کہ لیاری میں بلاول پر ہونے والے پتھراؤ میں کوئی ریاستی ادارہ ملوث نہیں ہے لیکن عام تاثر یہی ہے کہ 25 جولائی کے زور زبردستی کے ذریعے مسلم لیگ (ن) سے پنجاب اور پیپلز پارٹی سے سندھ چھیننے کی کوشش ہو گی۔ اسی لیے 25 جولائی کے بعد پاکستان میں سیاسی استحکام کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔وہ لوگ جو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد پر مجبور کر رہے ہیں اور جن پر عمران خان کو بھی ڈبل گیم کا شک ہے وہ آج وہی غلطی کر رہے ہیں، جو دو سال پہلے مریم نواز نے کی تھی۔
دو سال قبل پاناما اسکینڈل آیا تو نواز شریف اپنے آپ کو ناقابل تسخیر سمجھ رہے تھے۔ عمران خان کا دھرنا ختم ہو چکا تھا اور مریم نواز وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر ایک میڈیا سیل چلا رہی تھیں۔ اس میڈیا سیل نے پاکستان کے بڑے بڑے ٹی وی چینلز کو اپنا غلام بنا رکھا تھا اور جو صحافی یا اینکر مریم نواز کی غلامی سے انکار کر دیتا تھا تو اسے ملکہ عالیہ کے سامنے انکار کی پاداش میں غیر اعلانیہ پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔یہ پابندیاں کوئی اور نہیں بلکہ آپ کا اپنا ہی چینل آپ پرعائد کر دیتا تھا۔
ان پابندیوں کے خلاف آواز اٹھانے پر مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل نے میرے مرحوم والد کو بھی نہ بخشا۔ مجھے چھوڑیے۔ اس مشہور زمانہ سوشل میڈیا سیل نے پاکستانی فوج اور عدلیہ کی کسی شخصیت کو بھی نہیں چھوڑا۔اپوزیشن جماعتوں نے پاناما اسکینڈل کو پارلیمنٹ میں طے کرنے پر اصرار کیا تو خبط عظمت میں مبتلا مسلم لیگ (ن) کے وزراء رعونیت کا پیکر بن گئے۔
یہ معاملہ پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ میں پہنچا تو مسلم لیگ (ن) کے وزراء نے دانت پیس کر اور آنکھیں نکال کر کہا کہ ہم لوہے کے چنے بن جائیں گے اور تمہارے دانت توڑ دیں گے۔ اب یہ سابق وزراء ابلے ہوئے چنے بن چکے ہیں۔ رات کے سناٹوں میں ان کی آہ و بکا اور منت سماجت نے نواز شریف کا رہا سہا دبدبہ بھی ختم کر دیا ہے اور شاید اسی لیے اب مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ وہی کچھ کیا جا رہا ہے، جو مریم نواز دو سال پہلے وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر فوج اور عدلیہ کے ساتھ کر رہی تھیں۔
مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کو جس تباہی سے دو چار کیا وہ عمران خان کے بس کی بات نہیں تھی۔ مریم نواز کا راستہ تباہی کا راستہ ہے لیکن افسوس کہ آج پاکستانی ریاست کے کچھ لوگ ہمیں مریم نواز بنے نظر آتے ہیں۔ ہر کسی سے لڑائی ہر کسی سے پنگا۔ جو مان جائے وہ محب وطن، جو نہ مانے اسے ڈنڈا۔میڈیا پر دباؤ اور سیاستدانوں سے بلیک میلنگ، ان ہتھکنڈوں سے پاکستان مضبوط نہیں کمزور ہو گا۔ نواز شریف اور مریم نواز کو آپ جیل میں تو ڈال دیں گے لیکن پھر سنبھالیں گے کیسے؟
سنبھالنے کے لیے سیاسی کچرا کام نہیں آئے گا بلکہ صرف ایک صاف و شفاف پالیسی ہی پاکستان کو سیاسی بحران سے بچا سکتی ہے۔ 25 جولائی کو ایک نئے سیاسی بحران کا آغاز تو نظر آتا ہے لیکن انجام کا پتہ نہیں؟ صرف یہ پتہ ہے کہ ہمیں اندر اور باہر سے کچرا ختم کرنا ہے۔
بلاگ:حامد میر