اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)بچے کم خوشحال گھرانہ کا نعرہ تو اب موجودہ نسل کے دل میں گھر کر چکا ہے اور کوئی بھی لڑکی یالڑکا شادی کی رات ہی طے کرلیتے ہیں کہ انہیں ایک دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کرنے اور اس میں وقفہ بھی پیدا کرنا ہے۔ ایک حالیہ سروے میں تویہ انکشاف بھی ہوچکا ہے کہ اب پاکستانی لڑکیاں بھی بچے پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہیں ۔
ایسے میں انہیں جب یہ معلوم ہوجائے کہ وہ بیک وقت ایک سے زائد بچے پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔تو ان کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن انہونی اور قدرت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ۔شادی کے بعد جب کسی حاملہ خاتون کو الٹرا ساونڈ کراتے ہی یہ علم ہوجاتا ہے کہ اسکی کوکھ میں ایک نہیں بلکہ دو تین چار بچے پرورش پارہے ہیں تو ایسی خاتون کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے ۔پورا کنبہ اس فکر میں لگ جاتا ہے کہ بیک وقت اتنے بچوں کو کیسے پالا جائے۔اسکے باوجود پاکستان میں جڑواں بچوں وک اللہ کی رحمت سمجھا جاتا اور خواتین پوری توجہ سے ان بچوں کو وقت دیتی ہیں ۔کیونکہ اسکے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔کئی کئی جڑواں بچوں کی پیدائش کا معاملہ ایک طبی مسئلہ ہے اور قدرت کی جانب سے کیا گیا ایک معمہ خیز انتظام۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش کااندازہ شادی سے پہلے بھی لگایاجاسکتا ہے۔ جڑواں بچے پیدا کرنے والی خواتین کے ہاتھ کی لکیروں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بچوں کی لکیر آخر میں دوشاخہ یا سہ شاخہ ہوجائے یا جتنی شاخوں کو جنم دے گی ،اس خاتون کے ہاں اتنے ہی بچے پید اہوں گے۔ ان میں سے جو شاخیں موٹی ہوں گی وہ لڑکوں اور پتلی ساخت والی لڑکیاں ہوں گی۔ بچوں کی لکیر چھوٹی انگلی کے ابھار کے پہلو سے نکل کر عطارد کے ابھار تک جاتی ہے اور بچوں کی شاخیں اس لکیر سے نکلتی ہیں۔واضح کردیں کی دست شناسی کے اصولوں کے مطابق جن خواتین کا انگوٹھے کے نیچے زہرہ کا ابھار پچکااور تنگ ہوگا ،عموماً ایسی خواتین کے ہاں جڑواں بچوں کی پیدائش پیچیدہ ہوتی ہے جبکہ کشادہ پرگوشت ابھار والا زہرہ ایسی خواتین کے اندر غیر معمولی توانائی اور ہمت کاباعث بنتا ہے۔وہ جڑواں بچوں کا فراخ دلی سے استقبال کرتی ہے۔