اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دین اسلام میں پسند کی شادی یعنی شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی کی رضامندی کو ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ پسندکی شادی کا مطلب یہ نہیں کہ اخلاقی اور سماجی حدود کو کراس کر دیا جائے اور والدین کے ناموس کی دھجیاں بکھیر دی جائیں۔ دین اسلام شادی سے قبل لڑکا اور لڑکی کی رضامندی کا تو قائل ہے ہی مگر وہ اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے کہ لڑکا اور
لڑکی شادی سے قبل ایک دوسرے کو دیکھ لیں تاکہ اپنی پسند یا ناپسند کا اظہار والدین کے سامنے کھل کر کر سکیں۔ رشتوں کے سلسلے میں سماجی اور روایتی عقائد و رسومات کی رسیاں ڈالنے سے نوجوان نسل میں والدین کے خلاف بغاوت پیدا ہوتی ہے اور لڑکا لڑکی کے ایک دوسرے کو نہ دیکھنے کی صورت میں شادی کے بعد کئی مسائل جنم لیتے ہیں اور بعض اوقات نتیجہ خاندان کے ٹوٹ جانے پر منتہج ہوتا ہے ۔ اس حوالے سے معروف عالم دین مفتی عبدالقیوم ہزاروی کا قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ بھی سامنے آچکا ہے۔ مفتی عبدالقیوم ہزاروی نے قرآن مجید کی سورہ النسا کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے فتویٰ میں کہا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ”اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو“۔ یہ پسند دو طرفہ ہو گی، لڑکے کی طرف سے بھی اور لڑکی کی طرف سے بھی، کسی پر اس کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ ٹھونسا نہیں جا سکتا۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک اور مقام پر شادی کا مقصد بیان فرمایا ”اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں“۔مفتی عبدالقیوم ہزاروی نے اس ضمن میں متفق الیہ احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ
”حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے اگر اس کی ان خوبیوں کو دیکھ سکتا ہو جو اسے نکاح پر مائل کریں، تو ضرور ایسا کرے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ میں نے ایک لڑکی کو پیغام دیا اور چھپ کر اسے دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس کی وہ خوبی بھی دیکھی جس نے مجھے نکاح
کی جانب راغب کیا لہٰذا میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا“۔اسی طرح ”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جاو¿ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا، بعد میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے اس نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔“ ان تصریحات کی روشنی میں لڑکے اور لڑکی کی پسند کا خیال رکھنا والدین پر واجب ہے۔ ان کی مرضی کے خلاف شادی مسلط نہیں کی جانی چاہئے۔ اسلام کی رو سے لڑکے کے لیے لڑکی کو دیکھنا اور لڑکی کے لیے لڑکے کو دیکھنے کی اجازت ہے۔ اگر دیکھ کر جاننے کی کوشش کریں گے
تو پھر حدود عبور ہوتی ہیں۔ جہاں Limit Cross ہونے کا ڈر ہو، وہاں سے بچنا بہتری ہے۔ شادی سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھنا بھالنا مغربی دنیا سے زیادہ تو کوئی نہیں کرتا۔ شادی سے پہلے وہ سال دو سال دوست رہتے ہیں۔ جب ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ اور سمجھ لیتے ہیں، تو پھر شادی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ طلاقیں اور علیحدگیاں مغربی دنیا میں ہی ہوتی ہیں۔
آپ کو سو (100) میں سے دو (2) جوڑے ہی ایسے نظر آئیں گے جو بڑھاپے تک اکٹھے رہ رہے ہوں۔مفتی عبدالقیوم ہزاروی کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں دو بڑے طبقے ہیں، ایک والدین کا ہے جو لڑکے لڑکی کی رائے لینا پسند ہی نہیں کرتا اور اپنی مرضی کے فیصلے ان پر ٹھونستا ہے۔ دوسری طرف اولاد کا ایک ایسا طبقہ ہے جو والدین کی رائے لینا پسند نہیں کرتا۔
وہ شادی سے پہلے ہی کبھی شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں اور کبھی سیر و تفریح کے لیے کئی کئی دن رات گھر سے غائب رہتے ہیں۔ والدین کو پوچھنے کی جرات تک نہیں۔ لیکن یہ دونوں انتہائیں ہیں، اسلام ان دونوں کو پسند نہیں کرتا۔ آسان اور بہترین حل یہ ہے کہ دونوں خاندان ایک دوسرے کو کھانے پر مدعو کریں، اس طرح لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیں گے اور کوئی خرابی بھی پیدا نہیں ہوگی۔ مگر افسوس ایسا بہت کم لوگ ہی کرتے ہیں۔(بشکریہ روزنامہ پاکستان لاہور)