کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی حکومت کی جانب سے ملک میں کمرشل امپورٹررز کے لیے بیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمدکیلیے کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا جا سکا ہے۔ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے سمندر پار پاکستانیوں کوبیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیاں لانے کی اجازت دی گئی ہے اور اس ضمن میں ان کے لیے کئی اسکیمیں موجود ہیں تاہم ذرائع کے مطابق سمندر پار پاکستانیوں کو دی گئی سہولت کا کمرشل درآمدکنندگا ن کی جانب سے غلط استعمال ہو رہاہے
جس کو روکنے اور اس سلسلے میں نیا لائحہ عمل مرتب کرنے کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں کمرشل امپورٹرز کی جانب سے بیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے اسٹیٹ بینک وزارت تجارت ایف بی آر اور دیگر شراکت داروں کے درمیان مذاکرات ہوئے اور مستقبل میں گاڑیوں کی کمرشل درآمد کے حوالے سے مختلف آرا دی گئی ہیں۔گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے اسٹیٹ بینک حکام کاکہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے سمندر پار پاکستانیوں کے لیے مختلف اسکیموں کے تحت گاڑیاں لانے کی اجازت دی گئی تھی تاہم اس سہولت کو سمندر پارپاکستانی بہت کم استمعال کررہے ہیں اور اس سہولت کا غلط استعمال ہورہاہے جس کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔ذرائع کے مطابق حکام نے بتایاکہ بعض درآمدکنندگان سمندر پار پاکستانیوں سے سازباز کرکے اور سمندر پارپاکستانیوں سے انکا پاسپورٹ خرید کر کاروباری مقاصد کیلیے گاڑیاں منگواتے ہیں جو کہ غیر قانونی اقدام ہے حکام کا موقف تھاکہ اوورسیز پاکستانی خود گاڑیوں کی اسکیموں سے بہت کم مستفید ہوتے ہیں اور ان کے پاسپورٹ پر کمرشل درآمدکنندگان اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ کی جانب سے درآمد کنندگان کیلیے استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے طریقہ کار کی شدید مخالفت کی جارہی ہے اورای ڈی بی حکام کاکہناہے کہ بیرون ملک سے استعمال شدہ گاڑیوں کیلیے طریقہ کار مرتب کرنے اور گاڑیوں کی باقاعدہ اجازت دے دینے سے ملک میں آٹو انڈسٹری کو نقصان پہنچے گا۔ ای ڈی بی حکام کا موقف تھاکہ اگر کمرشل درآمدکنندگان کو استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے دی گئی تو اس سے ملک میں آٹو سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری رک جائیگی اور یہ صنعت متاثر ہوگی، جب تک اس سلسلے میں کوئی نیا لائحہ عمل طے نہیں پاتا اس وقت تک موجودہ طریقہ کار ہی جاری رکھاجائے گا۔