کراچی (نیوزڈیسک )کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن میں جز وقتی امن کو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑی کامیابی جانا مگر ٹارگٹ کلرز ایک بار پھر سے سرگرم ہوچکے ہیں اور پولیس اور رینجرز کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔ٹارگٹ کلنگ کی تازہ ترین وارداتوں کا آغاز رواں ماہ کراچی کے ایک تھانے دار کے قتل سے ہوا۔ اور پھر اسی روز امریکی خاتون شہری ڈیبرا لوبو پر بھی فائرنگ کی گئی۔ خوش قسمتی سے ڈیبرا کی جان بچ گئی۔ پھر دہشت گردوں نے سماجی کارکن سبین محمود کو رات کے اندھیرے میں نشانہ بنایا اور جامعہ کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر سید وحید الرحمان کو بھی گھر سے یونیورسٹی جاتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔ان چاروں وارداتوں میں بظاہر تو کوئی مماثلت نظر نہیں آتی لیکن تفتیش کاروں کے مطابق تمام وارداتوں میں دہشت گردوں کا طریقہ کار غیر معمولی حد تک ایک ہے۔ دہشتگردوں نے ہر واردات میں سی جی 125 موٹر سائیکل اور نائن ایم ایم پستول کا استعمال کیا ہے۔تفتیش کاروں کے مطابق ہدف کو گھر سے نکلتے ہوئے یا گھر لوٹتے ہوئے ایک مخصوص قسم کے ہتھیار سے پانچ گولیاں مارکر قتل کرنا بالکل ایک نیا رجحان ہے، جبکہ چار افراد پر اس وقت گولیاں چلائیں گئیں جب وہ گاڑی چلا رہے تھے کیونکہ گاڑی چلاتا ہوا شخص حملے کی صورت میں کسی قسم کی مزاحمت بھی نہیں کرسکتا۔ اس سے قبل دہشت گرد ہدف بنائے گئے شخص کو سر میں گولی مارا کرتے تھے۔