اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )چوہدری شجاعت حسین پاکستانی سیاست کی ایک بہت معروف شخصیت ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا نام ’’سچ تو یہ ہے‘‘رکھا گیا ہے۔ اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے‘‘میں چوہدری شجاعت نے تہلکہ خیز انکشافات کئے ہیں۔ مشرف دور میں سانحہ لال مسجد ایک ایسا عنوان ہے جس کی اندرونی کہانی آج بھی کئی دبیز تہیں چڑھی ہوئی تھیں
جنہیں پہلی بار چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں اتار کر رکھ دیا ہے۔ لال مسجد کے حوالے سے مسلم لیگ قائداعظم کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لال مسجد کے بارے میں اس وقت کی حکومت کے کئی تحفظات تھے۔ ان کے ازالہ کے لیے مختلف اقدامات پر غور ہورہا تھا۔ ایسی ہی ایک میٹنگ میں، جس میں وزیراعظم سمیت تمام اعلیٰ سطح کی سیاسی اور عسکری قیادت موجود تھی، میں نے تجویز کیا کہ یہ بڑا حساس معاملہ ہے اور اسے بات چیت سے ہی حل کرنا چاہیے،اس پر لال مسجد پر انتظامیہ سے مذاکرات کی ذمہ داری مجھ ہی کو سونپ دی گئی۔فروری 2007ء کے اوائل میں مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ میں نے حافظ طاہر خلیل کو بھی اپنے ساتھ شامل کرلیاکیونکہ ان کے مولانا عبدالعزیز اور غازی عبدالرشید کے ساتھ قریبی مراسم تھے۔ یہ میرے ساتھ اس پہلی میٹنگ میں بھی شامل تھے جو لال مسجد سے متصل دفتر میں ہوئی تھی۔پرامن حل کے لئے میری کوششیں:اگست 2005ء میں سی ڈی اے کی طرف سے اسلام آباد میں چھ مساجد کو منہدم کرنے کے بعد جب مری روڈ پر واقع مسجد امیر حمزہ کو بھی منہدم کردیا گیا، اور مزید کئی مساجد کو بھی نوٹس جاری کردئیے گئے تو ایک ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی۔ یہ اس وقت مزید بگڑ گئی، جب جامعہ حفصہ کی طالبات نے جوش جذبات میں وزارت تعلیم کے زیر انتظام چلنے والی چلڈرن لائبریری پر قبضہ کرلیا۔
مارچ 2007ء میں وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ نے مجھ سے دوبارہ رابطہ قائم کیا۔ میں نے پوچھا کہ حکومت کے مطالبات کیا ہیں۔ اس پر وزارت داخلہ کی طرف سے مجھے دس مطالبات کی فہرست مہیا کی گئی۔ یہ مطالبات مندرجہ ذیل ہیں:1۔ انتہا پسندی کی علامات ختم کی جائیں۔2۔ چلڈرن لائبریری پر قبضہ ختم کیا جائے۔3۔ کوئی طالب علم یا طالبہ ڈنڈا بردار نظر نہ آئے۔4۔ صرف مدرسہ کے
طلباء ہاسٹلز میں قیام کریں۔5۔ شرعی عدالت کے قیام کا اعلان واپس لیا جائے۔6۔ مارکیٹوں میں اخلاقی پالیسی کو از خود نافذ نہ کیا جائے۔7۔ تمام آبزرویشن پوسٹیں ختم کی جائیں۔8۔ بلڈنگ کے اندر اور باہر کوئی نقاب پوش نظر نہ آئے۔9۔ بلڈنگ کے اندر اگر کوئی اسلحہ ہے تو اس کو ہٹایا جائے۔10۔ جھنڈے اور بینرز ہٹالیے جائیں۔میں نے لال مسجدا نتظامیہ کو مصالحت پر راضی کرلیا اور 24 اپریل کو
حکومت کو رپورٹ پیش کی کہ لال مسجد انتظامیہ نے دس میں سے آٹھ نکات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کروادی ہے، اب صرف دو نکات کا مسئلہ ہے۔1۔ چلڈرن لائبریری پر طلباء کے قبضہ کا خاتمہ۔2۔ بلڈنگ کے اندر موجود اسلحہ کی واپسی۔اسلحہ کے بارے میں لال مسجد انتظامیہ کا موقف تھا کہ جو اسلحہ ان کے پاس ہے، وہ لائسنس یافتہ ہے، لہٰذا اس کی واپسی کا مطالبہ بلا جواز ہے۔
جامعہ حفصہ کا میرا دورہ:25 اپریل 2007ء کو میں نے جامعہ حفصہ کا دورہ کیا۔ وہاں دو گھنٹے قیام کیا۔ لال مسجد اور جامع حفصہ سے متعلق دونوں عجیب و غریب افواہیں گردش کررہی تھیں۔ کہا جارہا تھا، لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں درس تدریس کے بجائے طلباء وطالبات کو عسکری تربیت دی جارہی ہے۔ نتیجتاً، جامعہ حفصہ اور حکومت کے درمیان اختلافات ختم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جارہے تھے۔
اس پس منظر میں حافظ طاہر خلیل نے میرے لئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے دورے کا بندوست کیا۔ خیال یہ تھا کہ شاید اس طرح براہ راست رابطے سے حکومت او رجامعہ حفصہ میں تصفیے کی کوئی صورت نکل آئے۔ میرے ساتھ جامعہ حفصہ جانے والے وفد میں حافظ طاہر خلیل کے علاوہ وفاقی وزیر انیسہ زیب طاہر خیلی، بیگم رفعت سروراور پاکستان مسلم لیگ خواتین ونگ کی صدر بیگم فرح خان بھی تھیں۔
خواتین ساتھ لے جانے کا مقصد یہ تھا کہ جامعہ حفصہ سے متعلق اگر ہماری خواتین کے کچھ تحفظات ہیں تو وہ بھی دور ہوجائیں۔جامعہ حفصہ کی انتظامیہ اور طالبات نے ہمارا بھرپور استقبال کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جامعہ کی پہلی منزل پر بڑی تعداد میں چھوٹی چھوٹی بچیوں کے چہرے نظر آرہے تھے لیکن دوسری منزل پر جو طالبات تھیں، انہوں نے اپنے چہروں کو ڈھانپ رکھا تھا۔
جامعہ کی پرنسپل اُم حسان نے طالبات سے ہماری علیحدہ ملاقات کا بندوبست بھی کیا۔ طالبات نے شکوہ کیا کہ جامعہ حفصہ کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے حالانکہ جامعہ حفصہ میں ان کو عسکری نہیں، دینی تعلیم دی جارہی ہے۔ ملک میں نفاذ اسلام کا مطالبہ اور اس کے نفاذ کے لئے پرامن احتجاج کرنا ہر شہری کی طرح ان کا بھی حق ہے۔اس ملاقات کے علاوہ جامعہ حفصہ میں طالبات کا
ایک اجتماع منعقد ہوا، جس سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ کی پرنسپل ام حسان نے ملک میں نفاذ شریعت، فحاشی و عریانی کے خاتمے اور منہدم کی جانے والی مساجد کی ازسرنو تعمیر کا مطالبہ کیا۔ میں نے اپنے جوابی خطاب میں کہا کہ یہاں جامعہ حفصہ کا تعلیمی اور تدریسی ماحول دیکھ کر میں تو مطمئن ہوگیا ہوں۔ حکومت سے متعلق آپ کے تحفظات حکومت تک پہنچادوں گا۔
میں حکومتی عہدیدار نہیں ہوں لیکن میری پارٹی چاہتی ہے کہ حکومت او رجامعہ حفصہ کے درمیان اختلاف کا پر امن حل نکالا جائے۔ جامعہ حفصہ کے طلباء اور انتظامیہ کو بھی پرامن رہنا چاہیے تاکہ حکومت سے ان کے مذاکرات کسی حتمی نتیجے تک پہنچ سکیں۔ میں نے یہ بھی واضح طور پر کہا کہ ہم نفاذ شریعت کے خلاف نہیں، لیکن نفاذ شریعت کے لیے جو طریقہ کار آپ لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے،
میں اسے بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ آئین پاکستان میں یہ بات لکھ دی گئی ہے کہ پاکستان میں شریعت کے خلاف کوئی قانون بن ہی نہیں سکتا۔خواتین ارکان اسمبلی کا جامعہ حفصہ کا دورہ:جامعہ حفصہ سے واپسی پر میں نے حکومت کی روشن خیال خواتین ارکان اسمبلی سے کہا کہ وہ بھی جامعہ حفصہ کا دورہ کریں جن میں سمیرا ملک، فرح خان، نوشین سعید، گل فرخندہ، وفاقی وزیر انیسہ زیب طاہر خیلی،
نور جہاں پانیزئی اور بیگم طارق عزیز شامل تھیں۔ فرح خان نے واپسی پر بتایا۔’’گیٹ کے اندر سے ہمارا استقبال ایک نقاب پوش خاتون نے کیا جو ہمیں مسجد کے اندر لے گئیں۔ مختلف برآمدوں میں ہوتے ہوئے جب ہم مسجد کے بڑے صحن میں پہنچے تو اوپر کی منزل پر نقاب پوش ڈنڈا بردار طالبات کھڑی تھیں۔ صحن میں موجود تمام خواتین نے عام سادہ کپڑے پہن رکھے تھے،
جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی ’انقلاب‘ اور ’انتقام‘ کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔ میں نے ڈائس پر جاکر ان خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم آپ کے اپنے ہیں، آپ ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ ہم آپ کو محبت دینے آئے ہیں اور آپ سے محبت لینے آئے ہیں۔ اپنوں سے نہ تو انتقام لیا جاتا ہے اور نہ ہی بدلہ۔‘‘فرح خان نے جو کچھ بتایا، وہ میرے لئے بہت پریشان کن تھا۔
آپریشن سے پہلے آخری میٹنگیں:لال مسجد آپریشن سے چند ہفتے پہلے کی بات ہے، جنرل پرویز مشرف نے ایک اجلاس طلب کیا۔ یہ اجلاس اس اعتبار سے بڑا اہم تھا کہ اس میں صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز سمیت حکومت کے تمام اہم عہدیدار موجود تھے، وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، جنرل طارق مجید، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل حسین مہدی، سیکرٹری داخلہ کمال شاہ اور ایوان صدر کا سٹاف،
مَیں اور مشاہد حسین سید بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ کرنل ہارون الاسلام کو بھی ایک مرحلے پر بریفنگ دینے کے لیے طلب کیا گیا۔ صدر نے سب سے پوچھا، آپ لوگ کیا کہتے ہیں۔ وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، مشاہد حسین سید اور میں نے آپریشن کی مخالفت کی۔ ہمارا موقف تھا، لال مسجد کے خلاف آپریشن کے خطرناک مضمرات ہوں گے۔ جامعہ حفصہ کی انتظامیہ ہمارے بیشتر مطالبات تسلیم کرنے پر تیا رہیں۔
اب ان کا صرف یہ کہنا ہے کہ سی ڈی اے کی جانب سے منہدم کی جانے والی مساجد کو دوبارہ تعمیر کردیا جائے۔ اس وقت تک خیال یہ تھا کہ اگر لال مسجد کے خلاف آپریشن کرنا پڑگیا تو یہ وزارت داخلہ کے تحت ہوگا۔ کافی دیر بحث ہوتی رہی، مگر کچھ طے نہ ہوسکا۔ لہٰذا آپریشن کا فیصلہ ملتوی کردیا گیا، جس پر مجھے یاد ہے کہ سب نے سکھ کا سانس لیا تھا۔اسی طرح وزیراعظم ہاؤس میں ایک میٹنگ تھی۔
میں نے وزیراعظم شوکت عزیز سے کہا کہ لال مسجد کا معاملہ نازک ہے، آپ سی ڈی اے کی جانب سے مسمار کی جانے والی مساجد کی دوبارہ تعمیر میں تاخیر کا نوٹس کیوں نہیں لے رہے۔ اس پر وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا، اچھا ہے، اس طرح میڈیا کی توجہ عدلیہ کے معاملے سے ہٹ رہی ہے۔ یہ بات ہورہی تھی کہ وزیر اطلاعات محمد علی درانی بھی آگئے۔ میں نے لال مسجد کا معاملہ طول پکڑنے
کی بات کی تو محمد علی درانی نے بھی وہی بات کہی، جو اس سے پہلے شوکت عزیز کرچکے تھے کہ اس طرح عدلیہ کے ایشو سے لوگوں کی توجہ ہٹ رہی ہے۔جماعت اسلامی کے وفدکا جنرل مشر ف کو ملنے سے انکار:آپریشن سے دو تین روز پہلے جماعت اسلامی کا ایک وفد مجھے ملنے کے لئے آیا۔ اس میں لیاقت بلوچ اور قاضی حسین احمد کی صاحبزادی سمیحہ راحیل قاضی بھی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لال مسجد کا تنازع پرامن طو رپر حل کرانا چاہیے۔ میں نے کہا، ہم کوشش کررہے ہیں۔ آپ لوگ بھی میرے ساتھ چلیں، میں آپ کو صدر مشرف سے ملواتا ہوں۔ آپ اس معاملے پر ان سے بھی بات کریں لیکن جماعت اسلامی کا وفدصدر مشرف سے اس سلسلے میں ملنے کے لئے راضی نہ ہوا۔ لیاقت بلوچ نے کہا، ہم وزیراعظم شوکت عزیز سے مل نے کے لیے تیار ہیں،
حالانکہ اس سلسلہ میں وزیراعظم سے ملنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔عبدالستار ایدھی صاحب کی آمد:لال مسجدآپریشن سے ایک رات پہلے ہم لال مسجد سے ملحقہ ایک گھر میں بیٹھے تھے کہ معلوم ہوا کہ لال مسجد کے باہر عبدالستار ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ بلقیس ایدھی بھی آچکے ہیں۔ میرے دل میں ہمیشہ عبدالستار ایدھی صاحب کا بڑا احترام رہا ہے۔ میرے نزدیک انسانیت کے لیے
ا ن کی خدمات کے آگے نوبل انعام بھی کوئی چیز نہیں۔میں نے عبدالستار ایدھی صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ بلقیس ایدھی کو بڑی مشکل سے آمادہ کیا کہ وہ ہمارے ساتھ لال مسجد سے ملحقہ گھر میں آجائیں۔ شام کے بعد جب آپریشن کے خطرات مزید بڑھ گئے تو میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ یہاں سے کسی محفوظ مقام پر تشریف لے جائیں، کیونکہ یہاں ٹھہرنے سے آپ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
وہ اس بات پر راضی نہیں ہورہے تھے، تاہم بعد میں میرے اصرار پر راضی ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد میرے دل میں عبدالستار ایدھی صاحب کا احترام پہلے سے بڑھ چکا تھا۔آخری رات:آپریشن سے پہلے آخری رات جو مذاکرات ہوئے، ان میں غازی عبدالرشید کا کہنا تھا کہ وہ اس شرط پر باہر آئیں گے کہ انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا اور محفوظ راستہ دیا جائے گا۔ اس وقت تک بیشتر بچے بچیاں باہر آچکے تھے۔
ادھر حکومت کو اندیشہ تھا کہ کہیں اس طرح محفوظ طریقے سے باہر آکر وہ کوئی اور لڑائی نہ چھیڑ دیں۔ تاہم غازی عبدالرشید کی اس تجویز پر ہم نے کہا، ٹھیک ہے، آپ کا پیغام حکومت تک پہنچادیتے ہیں۔وہاں سے میں وزیراعظم ہاؤس کے لیے روانہ ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ وزیراعظم شوکت عزیز کو ساتھ لے کر صدر پرویز مشرف سے ملوں۔ راستے میں، مَیں نے گاڑی ہی سے جنرل طارق مجید
کو فون کیا کہ میں یہاں سے وزیراعظم ہاؤس جارہاہوں۔ وہاں سے وزیراعظم کو ساتھ لے کر ایوان صدر پہنچوں گا اور صدر کو اس نئی صورتحال سے آگاہ کروں گا۔ جنرل طارق مجید نے کہا، ٹھیک ہے، صدر مشرف سے ملنے کے بعد بھی جو بھی فیصلہ ہو، آپ مجھے اس سے مطلع کردیجیے گا۔وزیراعظم ہاؤس سے شوکت عزیز کو ساتھ لے کر میں ایوان صد رپہنچا۔ ایوان صدر میں اس وقت
صدر مشرف کے ساتھ جنرل حامد جاوید اور باقی سٹاف بھی موجود تھا۔ میں نے صدر مشرف سے کہا، غازی عبدالرشید کہتے ہیں کہ محفوظ راستہ دینے کی صورت میں وہ مسجد میں موجود باقی خواتین اور بچوں کو ساتھ لے کر باہر آجائیں گے۔ میں نے کہا، حکومتیں بے گناہ شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ہائی جیکروں سے بھی مذاکرات کرتی ہیں۔ عورتوں اور بچیوں کی زندگیاں بچانے کے لیے
آپ انہیں ہائی جیکر ہی سمجھ لیں۔ایوان صدر سے بالکل مایوس ہوکر، جب میں واپس آیا تو میں نے لال مسجد کے قریب ایک جگہ پریس کانفرنس کی اور اس معاملے میں اپنی بے بسی ظاہر کی۔ اس دوران بار بار ہمیں کہا جارہا تھا کہ جلدی کریں، یہاں سے نکلیں، آپریشن شروع ہونے والا ہے۔ ہم لوگ وہاں سے نکل کر ابھی اگلے چوک تک ہی پہنچے تھے کہ دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔
آپریشن شروع ہوچکا تھا۔میں گھر واپس آگیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میرے کانوں میں بچوں کے رونے اور چیخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ آج بھی جب میں اس وقت کے بارے میں سوچتا ہوں تو جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتا۔جامعہ حفصہ کی دو بچیوں کی کفالت:آپریشن سے کچھ دیر پہلے غازی عبدالرشید ٹی وی پر آئے اور کہا کہ میرے پاس دو بچیاں ہیں،
جن کو ان کی ماں تنگدستی کی وجہ سے لال مسجد میں چھوڑ گئی تھی، میں چاہتا ہوں کہ چودھری شجاعت حسین ان دونوں بچیوں کو اپنی کفالت میں لے لیں۔ آپریشن کے بعد میں بڑی مشکل سے ان دو بچیوں کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا۔ ان کو میں اپنے گھر لے آیا۔ یہ بچیاں اب پاک ترک آرگنائزیشن ’’خوبیر فاؤنڈیشن‘‘ میں پڑھ رہی ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ آج اتنے سال بعد بھی میں ان کی پرورش
کو اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ ان سے ملاقات بھی کرتا رہتا ہوں۔ ایک بار عید کے موقع پر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے بعد کچھ اور بچیاں بھی اندر موجود تھیں۔ انہوں نے جواب دیا، ہم تین بہنیں اس مدرسے میں پڑھتی تھیں۔ ہماری ایک بہن آپریشن سے پہلے باہر نکل آئی تھی اور سب سے آخر میں ہم دونوں بہنیں نکلی تھیں۔(بشکریہ روزنامہ پاکستان لاہور)