اتوار‬‮ ، 06 اکتوبر‬‮ 2024 

ایک ہی عہدے کے سرکاری افسران، ایک ادارے میں تنخواہ 2لاکھ جبکہ اسی پوسٹ پر دوسرے ادارے میں 12لاکھ روپے تنخواہ کس طرح لے رہے ہیں؟چیف جسٹس نے بڑی چوری پکڑ لی،دھماکہ خیز احکامات جاری

datetime 24  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پنجاب میں تشکیل دی گئی کمپنیوں کے افسران کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ٹھیکیداروں کے سپرد نہ کیا جائے، ہم یہاں ٹھیکیداری نظام چلنے دیں گے اور نہ کسی کو بندربانٹ کی اجازت دی جائے گی،سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو 2 لاکھ جبکہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتالوں میں 12 لاکھ روپے تنخواہ کس قانون کے تحت دی جارہی ہے،

ہسپتالوں میں بھرتی کے حوالے سے دہری پالیسیوں کیوں اختیار کی گئی ہے ؟۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سٹریٹیجک مینجمنٹ اینڈ انٹرنل رسپونس یونٹ میں ریٹائرڈ افسروں کی بھاری مراعات پر بھرتیوں کے خلاف کیس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید سمیت دیگر اعلیٰ افسران موجود تھے۔ چیف جسٹس نے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور دیگر افسران کی بھاری مراعات اور تنخواہوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں نجی سیکٹر سے رکھے گئے افسر کو دی جانے والی مراعات کی بھی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دیا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف سیکرٹری پنجاب سے پنجاب میں تشکیل دی گئی کمپنیوں کے افسران کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیدیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ صوبے کا سب سے بڑا افسر چیف سیکرٹری 2لاکھ روپے تنخواہ لے رہا جبکہ ریٹائرڈ افسران کس قانون کے تحت ہائی کورٹ کے جج سے زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ صوبائی حکومت نے کتنی کمپنیاں بنائی ہیں؟، جس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے 50 سے زائد کمپنیاں تشکیل دی ہیں۔

چیف سیکرٹری کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے سب کچھ نجی سیکٹر کے حوالے کردیا، اگر کام نہیں کرسکتے تو آپ حکومت چھوڑدیں ،ہم عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دیں گے،پاکستان میں پبلک کا پیسہ ہے اوردوائیاں نہیں ملتی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ملک میں ٹھیکیداری نظام نہیں چلنے دیں گے اور کسی کو بندربانٹ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔جسٹس ثاقب نثار نے کا کہنا تھا کہ صوبے نے 56کمپنیاں بنا لیں اوراپنے اختیارات کمپنیوں کے حوالے کردئیے

اور کمپنیوں میں اربوں روپے دے کر لوگوں کو نوازا گیا۔بعد ازاں دوران سماعت عدالت نے ترکی کی طیب اردگان ٹرسٹ کے تحت چلائے جانے والے ہسپتالوں کی بھی تفصیلات طلب کرلیں۔اس دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو 2 لاکھ جبکہ اسٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتالوں میں 12لاکھ روپے تنخواہ کس قانون کے تحت دی جارہی ہے؟ جس پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں۔چیف سیکرٹری کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے

سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو بھاری تنخواہیں دیں، ہم ابھی حکم نامہ جاری کرتے ہیں اور ڈاکٹروں کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگا دہتے ہیں، پھر ہم ڈاکٹروں کو پابند بنائیں گے کہ وہ مکمل ڈیوٹی دیں اور نظام کو کمپیوٹرائزڈ بنا کر ان کی حاضری کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ آپ انہیں اتنے پیسے دے دیں کہ پرائیویٹ پریکٹس بند کردیں گے ،جو ڈاکٹرز یہاں رہ رہے ہیںآپ ان کی عزت کریں ۔دوران سماعت چیف سیکرٹری نے بتایا کہ جگر کا ٹرانسپلانٹ ہسپتال اسٹیٹ آف دی آرٹ ہے،

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا تو ہر منصوبہ ہی اسٹیٹ آف دی آرٹ ہے۔چیف سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ میں بیرون ملک خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں کو نوکریاں دی گئی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جن کو آپ نے رکھا ہے انہوں نے بیرون ملک خدمات سر انجام دی ہیں، جو ملک کے لیے خدمات سر انجام دے رہے ہیں انہیں یہ صلہ دیا جارہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صوبے کا چیف سیکرٹری2لاکھ تنخواہ لے اور جن کو آپ نے رکھا ہے

وہ 12لاکھ کس حیثیت سے لے رہے ہیں، ہسپتالوں میں بھرتیوں کے لیے دوہری پالیسی کیوں اختیار کی گئی؟۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ ان ڈاکٹروں کا کیا قصور ہے جو محنت اور دیانت سے سرکاری ہسپتالوں میں اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں، کیوں نہ لیور ٹرانسپلاٹ ہسپتال کے سربراہ کو عدالت میں طلب کر لیا جائے۔دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر کو روسٹرم پر بلا لیا اور ان سے ان کی تنخواہ کے بارے میں استفسار کیا تو ڈاکٹر نے جواب دیا کہ میں پونے دو لاکھ تنخواہ لیتا ہوں۔ڈاکٹر نے عدالت کو بتایا کہ باہر سے آنے والے ڈاکٹرز کو 20،20لاکھ روپے دیئے جاتے ہیں ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ جتنی دوائیوں کے ٹیسٹ التو اء میں ہیں انہیں دن رات لگا کر ختم کریں اور15دن میں پورٹ پیش کریں۔



کالم



کوفتوں کی پلیٹ


اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…