لاہور(پ ر)پاکستان میں عدالتی نظام کو بہت اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور کسی بھی ملک کا عدالتی نظام اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے ۔ آج پاکستان کے چیف جسٹس کی جانب سے ایک بیان منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے پنجاب گورنمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے حکومت پنجاب کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب اپنی کارکردگی پر توجہ برتے ۔۔نیز یہ کہ آپ نے سب کچھ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیا۔
یہ بیان سرکاری یا عدالتی حیثیت کا کم اور ذاتی نوعیت کا زیادہ لگا کیونکہ پنجاب کے مختلف شعبوں میں جاری کاموں اور ترقیاتی منصوبوں کی مثال دنیا دے رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی کارکردگی کو پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر کافی سراہا جا رہا ہے اور حکومت پنجاب کی کاوشوں کو بے انتہا پسند کیا گیا ہے۔شہباز شریف کے ویژن کو باقی ترقی پزیر ممالک کے حکمرانوں کے لئے ایک کامیاب مثال کے طور پر گردانا جا رہا ہے۔۔ ترقیاتی کاموں کا اتنی شفافیت اور کم وقت میں ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔۔ابھی چندروز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی جانب سے1ارب روپے کی لاگت سے تعمیر ہونیوالے ملکی تاریخ میں اپنی نوعیت کے پہلے اور جدید ترین منصوبے ’’پنجاب کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ ‘‘کا افتتاح کیا گیا۔پاکستان سمیت دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے افراد اور ڈاکٹرز کی جانب سے بھی خادم پنجاب کی اس کاوش کو بے پناہ پسند کیا گیا۔۔ بین الاقوامی معیار کے ڈاکٹروں کو اس ہسپتال میں بھرتی کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ ہمارے یہاں کے لوگوں کو علاج کی غرض سے بیرون ممالک نہ جانا پڑے اور پوری دنیا سے اپنے اپنے شعبے کے ماہر ڈاکٹروں کو اس ہسپتال میں بھرتی کرنا ہمارے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہونا چاہئے ہم اگر تجربے
اور مہارت کو صرف پیسوں کی بنیاد پر تولتے رہے تو کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ اور جو بھی ڈاکٹر حضرات بیرون ملک میں ملین روپوں کی نوکری اور عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کرخادم پنجاب کے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان پہنچے ہیں، چیف جسٹس کا یہ بیان کیا ان کی پیشہ ورانہ خدمات اور حب الوطنی کی تذلیل نہیں!صرف سرکاری مشینری کے اوپر انحصار کرنا شاید اب ممکن نہیں ہو پائے گا پشاور کی مثال آپ کے
سامنے ہے اور باقی دیگر صوبوں کا بھی اگر ترقیاتی سطح پر موازنہ کیا جائے تو پنجاب کارکردگی کے اعتبار سے سب سے آگے ہے اور یہاں پر ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کی رفتار کی صرف پاکستان ہی میں نہیں پوری دنیا میں دھوم ہے ہمیں اپنے سرکاری شعبوں میں تو بہتری لانی پڑے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے بھی ترقی کی کئی منزلیں طے کرنا ہیں ہم سب بہتر جانتے ہیں کہ ہماری سرکاری
مشینری ملک کے لیے کس حد تک فائدہ مند ہے لیکن ضروری امر یہ دیکھنا ہے کہ وہ آیا کس حد تک مل کو فائدہ پہنچا رہی ہے پرائیوٹ سیکٹر میں لوگوں کی بھرتی اور نجی کمپنیوں کا آغاز پاکستان میں اور صوبہ پنجاب میں نہایت کارآمد ثابت ہوا ہے آپ پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں میں میرٹ کو دیکھ لیں ،شفافیت کو دیکھ لیں اور تیز رفتاری کو دیکھ لیں آپ ان ترقیاتی منصوبوں کا کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے ترقیاتی منصوبوں سے موازنہ کر سکتے ہیں
لہذا کوئی بھی گورنمنٹ یہ جانتی ہے کہ اگر ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنا ہے توہمیں پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ اور نجی کمپنیوں کا سہارا لازمی لینا پڑے گا تبھی ہمارا صوبہ اور ملک ترقی کر پائے گا اب ہمارے عدالتوں میں موجود لوگوں کابھی فرض بنتا ہے کہ وہ تعریف نہیں کرنا چاہتے نہ کریں لیکن ایک ایسے انسان کے بارے بات کرنے سے پرہیز کریں جو روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کر رہا ہے اور خدمت کے زریعے لوگوں کی دعائیں لینے والا مسیحا ہے امید ہے چیف جسٹس صاحب اپنے بیان کو واپس لیں گےاور ان لوگوں کی صف میں ہر گز شامل نہ ہوں گے جو پنجاب بلکہ پاکستان میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کو روکنے کے لئے رات دن منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں ۔