اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) داعش کے جنگجوﺅں کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہونے والی یزیدی لڑکیاں خفیہ طور پر اسقاط حمل اور آپریشن کے ذریعے اپنا کنوارپن دوبارہ حاصل کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔
کئی مہینوں تک داعش کے شدت پسندوں کے چنگل میں رہنے اور جنسی استحصال اور جسمانی تشدد کے بعدکردستان واپس آنے والی لڑکیاں اپنے معاشرے کی طرف سے دھتکارے جانے سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ان کے معاشرے میں شادی سے قبل جنسی تعلقات کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا ہے۔کردستان کے بعض ڈاکٹر مقامی قانون سے ہٹ کر ان لڑکیوں کا اسقاط حمل اور آپریشن کر رہے ہیں۔ جنگجوﺅں کے جنسی تشدد کا شکار ہونے والی لڑکیوں میں بعض انتہائی کم عمرہیں، بعض کی عمر 8سال تک ہے۔ سینکڑوں لڑکیوں کو جنگجو ایک سال قبل یزیدی بستیوں سے گن پوائنٹ پر اغواءکر کے لے گئے تھے اور قرعہ اندازی کے بعد جنگجوﺅں میں یہ لڑکیاں تقسیم کر دی گئی تھیں۔ کردستان کا یزیدی طبقہ انتہائی مذہبی ہے جس میں اسقاط حمل پر مکمل پابندی عائد ہے، حتیٰ کہ جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی اسقاط حمل کی اجازت نہیں۔ قیدرہنے والی31سالہ یزیدی خاتون راشدہ نے بتایا کہ اسے اس کے بھائی نے پیغام بھیجا کہ اگر وہ دہشت گردوں کے چنگل سے بھاگ نہیں سکتی تو خودکشی کر لے۔ راشدہ نے بتایا کہ ہمیں لیجانے کے بعد جنگجوﺅں نے ہمارے ناموں کی قرعہ اندازی کی ، جس کے لیے جس لڑکی کا نام نکلتا وہ اسے لے جاتا۔ میں ابو غفران نامی شخص کے حصے میں آئی تھی۔وہ مجھے اپنے ساتھ گھر لے گیا اور نہانے کو کہا۔ مجھے اس کے گھر میں زہر کی ایک بوتل ملی جس میں سے تھوڑا تھوڑا زہرمیں نے دیگر مغوی لڑکیوں کو بھی دیا۔ ہم سب نے واش روم جا کر وہ زہر پی لیا۔ لیکن اس زہر نے ہم پرکوئی اثر نہیں کیا، الٹا ہم سب بیمار ہو گئیں۔