اسلام آباد (نیوزڈیسک)کے 1600 فوجی اہلکار پہلے سے سعودی عرب میں تعینات ہیں تو پھرمزیدایک ہزار فوجی وہاں کیا کریں گے؟بالاخر اصل وجہ سامنے آہی گئی، چونکا دینے والے انکشافات،وزیر دفاع خرم دستگیر نے واضح کیا ہے کہ سعودی عرب میں موجود پاکستانی فوج یمن کی جنگ میں شریک نہیں ہو گی ٗپاکستانی فوج سعودی عرب میں صرف تربیت اور مشاورت کے عمل میں شریک ہے ٗوزیراعظم نے مزید ایک ہزار فوجی اہلکار سعودی عرب بھیجنے کی منظوری دے دی ہے
جس کے بعد وہاں موجود پاکستانی فوجیوں کی کل تعداد 2600 ہو جائیگی جبکہ سینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی نے خرم دستگیر کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو باتیں انھوں نے بتائیں ہیں یہ ایوان پہلے سے جانتا ہے ٗوہ یہ بتائیں کہ مزید بھیجے جانے والے فوجیوں کو سعودی عرب میں کہا ں تعینات کیا جائیگا اور وہ وہاں کریں گے کیا؟۔ سینٹ اجلاس میں سعودی عرب میں مزید فوج بھیجے جانے کے معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستانی فوج سعودی عرب میں صرف تربیت اور مشاورت کے عمل میں شریک ہے۔وزیر دفاع خرم دستگیر نے کہا کہ پاکستان کے 1600 فوجی اہلکار پہلے سے سعودی عرب میں تعینات ہیں جبکہ وزیراعظم نے مزید ایک ہزار فوجی اہلکار سعودی عرب بھیجنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد وہاں موجود پاکستانی فوجیوں کی کل تعداد 2600 ہو جائے گی۔خرم دستگیر نے بتایا ان اہلکاروں کو 1982 کے پروٹوکول کے تحت بھیجا جا رہا ہے۔سینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی نے خرم دستگیر کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو باتیں انھوں نے بتائیں ہیں یہ ایوان پہلے سے جانتا ہے لہٰذا وہ یہ بتائیں کہ مزید بھیجے جانے والے فوجیوں کو سعودی عرب میں کہا تعینات کیا جائے گا اور وہ وہاں کریں گے کیا؟ان کا سوال تھا کہ فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے کے بیان سے قبل ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور کیوں ایوان کو آگاہی اس بیان سے ملی۔
وزیر دفاع خرم دستگیر نے اعتراف کیا کہ وزارت دفاع کی جانب سے یہ بیان سامنے آنا چاہیے تھا اور اس واقعہ میں ان کے سیکھنے کیلئے سبق ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی منظوری کے بعد فوج نے یہ بیان جاری کیا تھا تاہم تسلیم کیا کہ ایوان کو آگاہ کیا جانا چاہیے تھا۔ وزیر دفاع نے دوبارہ کھڑے ہو کر ایوان کو بتایا کہ پاکستانی فوجی سعودی عرب کی فوج کو تربیت اور ان کی رہنمائی کیلئے بھیجے جا رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے خاصے خدشات پائے جاتے ہیں اور میں یقین دہانی کرواتا ہوں پاکستانی فوجی اہلکار یمن کی جنگ میں حصہ نہیں لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے اضافی اہلکار سعودی عرب کی مقامی فوج کی تربیت اور مشاورت کا کام کریں گے۔خرم دستگیر نے ایوان میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا دفاعی تعاون پانچ دہائیوں پر محیط ہے ۔وزیر دفاع نے فوجیوں کی تعیناتی کے مقام نہیں بتا سکتے اپنے فوجیوں کی حفاظت کیلئے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا کہ اس کیلئے وہ بند کمرے کا اجلاس طلب کرسکتے ہیں لیکن وزیر دفاع نے اصرار کیا کہ یہ معلومات دینا ان کے لیے مشکل ہوگاخرم دستگیر نے بتایا کہ چونکہ پاکستانی افواج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پہاڑوں پر جنگ کا تجربہ ہے اور وہ اس میں مہارت حاصل کر چکی ہیں
اس لیے وہ سعودی افواج کو اسی حوالے سے تربیت دیں گی۔انھوں نے وضاحت دی کہ 1982 کے پروٹول میں یہ بات واضح ہے ٗاسی لیے پاکستانی فوجی صرف سعودی فوج کو مہارت اور قابلیت سکھانے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں، ہمارا مقصد سعودی عرب کی افواج کو تربیت فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے ایران کا دورہ کیا، ایرانی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا۔ اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر فوجی و سول حکام نے ایران کے دورے کئے ہیں۔ پاکستان ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے 2015ء کی پارلیمنٹ کی قرارداد سے تجاوز نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان یمن کے معاملے پر غیر جانبدار رہے گا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 1982 کے پروٹوکول میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ہنگامی صورتحال میں انہی فوجیوں کو جنگ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور حکومت اس حوالے سے بھی ایوان کو مطمئن کرے۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کیا سرحد پر فوجیوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے؟ میرے خدشات اپنی جگہ قائم ہیں۔سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ سعودی عرب سے عسکری تعلقات بڑھاتے ہوئے کیا ہم نے سوچا ہے کہ اس سے دیگر ہمسایوں پر کیا اثر پڑے گا؟انہوں نے کہاکہ کیا ہم اس حوالے سے ایران کو یقین دہانی کروا پائیں گے؟ کہیں ہم کسی ٹریپ کی جانب تو نہیں بڑھ رہے؟اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب سے عسکری تعلقات بڑھانے کے باعث ہمارے ایران سے تعلقات خراب نہ ہوجائیں جن سے ہماری سرحد ملتی ہے۔