کراچی (این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے دودھ سے پابندی اٹھانے کیلئے سفارش کروانے پر نورپور کمپنی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جرات کیسے ہوئی؟ آپ آرمی سے سفارش کرائیں گے، آپ کا ادارہ آرمی والوں کا ہے تو ہم کیا کریں، ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ہفتے کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ڈبے کے مضرِ صحت دودھ کیس کی سماعت ہوئی۔ نور پور کمپنی کے چیف آپریٹنگ آفیسر سمیت مارکیٹنگ ٹیم عدالت میں پیش ہوئی تو چیف جسٹس نے کمپنی کے مالکان کی
عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی ای او کہاں ہے، کیا آپ قانون سے بالا ہیں، آپ کے مالکان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ خود آتے، انہوں نے عملے کو آگے کردیا، عدالت کے ساتھ اپنا رویہ درست کریں، ملازمین کو بھیج کر کمپنی کھلوانا چاہتے ہیں، نور پور کون چلاتا ہے؟۔چیمبر میں اپروچ کرنے پر چیف جسٹس نے نورپور کے چیف آپریٹنگ آفیسر کی سخت سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ آرمی سے سفارش کرائیں گے، آپ کی جرات کیسے ہوئی مجھے چیمبر میں اپروچ کرنے کی، وکیل نے کہا ہوگا نہ کہ اتنے پیسے دو، کام ہو جائے گا، ہم کسی سے نہیں ڈرتے، مجھے کوئی فکر نہیں، مجھے اپنے قوم کے بچوں کو ایسا دودھ نہیں پلانا، اگر دودھ ٹھیک کرلیں تو پابندی اٹھا لیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا ادارہ آرمی والوں کا ہے تو ہم کیا کریں، فوجی فانڈیشن ہے تو مجھے اس سے کیا غرض، چیئرمین فوجی فانڈیشن خود پیش ہوں گے تو پابندی پر نظر ثانی کریں گے، سی ای او سے کہیں وہ آجائیں، اوپر سے آئیں گے تو یہی حال ہوگا۔ چیف جسٹس نے مارکیٹنگ منیجر نور پور ارباب گردیزی سے پوچھا کہ آپ بھی اپنے بچوں کو نور پور دودھ پلائیں گے؟۔چیف جسٹس نے عدالتی معاون سے رپورٹ طلب کی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈے فریش اور نور پور کے دوبارہ ٹیسٹ کرائے گئے جن میں نمونے کلئیر قرار دیئے گئے۔اس پر سپریم کورٹ نے ڈے فریش اور نور پور کی فروخت پر
عائد پابندی ختم کرتے ہوئے ڈے فریش کمپنی کو حکم دیا کہ 3 روز میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اشتہار جاری کیا جائے کہ 4 جنوری سے پہلے کی پراڈکٹ نہ خریدی جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ڈے فریش کمپنی کی 4 جنوری سے پہلے کی جاری شدہ مصنوعات قابل استعمال نہیں، پابندی ختم ہونے کے بعد 3 ماہ تک ان پراڈکٹس کی ماہانہ ٹیسٹنگ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے۔