کراچی(اے این این)سینیٹ انتخابات میں سندھ کی صورت حال انتہائی دلچسپ ہے جہاں 12 سینیٹرز کا انتخاب کیا جائے گا۔ان میں 7 جنرل نشستوں، 2 ٹیکنوکریٹ، 2 خواتین اور ایک سینیٹر اقلیتی نشست پر منتخب کیا جائے گا۔سندھ اسمبلی میں نشستوں کی کل تعداد 168 ہے جن میں سے ایوان میں اس وقت 167 اراکین موجود ہیں۔اسمبلی میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اراکین کی تعداد 95 جبکہ اپوزیشن جماعتوں کے مجموعی طور پر 72 ووٹ بنتے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اراکین کی تعداد 50، مسلم لیگ فنگشنل کے 9، مسلم لیگ ن کے 7، پاکستان تحریک انصاف کے 4، نیشنل پیپلز پارٹی کا ایک اور ایک آزاد رکن شامل ہے۔سندھ میں ایم کیو ایم پاکستان کے 10 اراکین مستعفی ہو کر دیگر جماعتوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں تاہم ان کے استعفے ابھی تک منظور نہیں ہوئے۔10 منحرف اراکین میں سے 8 پاک سر زمین پارٹی جبکہ ایک رکن نے پی پی پی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ایک رکن اسمبلی نے استعفی دینے کا اعلان تو کیا ہے مگر کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔اسی طرح تحریک انصاف کا ایک رکن بھی پی ایس پی میں شمولیت اختیار کر چکا ہے۔سندھ سے سینیٹ کی نشست کو جیتنے کے لیے درکار ووٹوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو 7 جنرل نشستوں کے لیے ایک امیدوار کو تقریبا 24 ووٹ لینے ہوں گے۔ادھر خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی نشستوں کے لیے امیدواروں کو انفرادی طور پر 80 سے زائد ووٹ درکار ہوں گے۔ اقلیتی رکن کا انتخاب ایوان کے اکثریتی ووٹ پر ہوگا۔پیپلز پارٹی ایوان باآسانی 4 جنرل نشستوں کے ساتھ ایک خواتین اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست بھی حاصل کرسکتی ہے جبکہ پوری اپوزیشن مل کر ووٹ کرے تو 3 جنرل نشستیں جبکہ خواتین اور ٹیکنوکریٹس کی ایک، ایک نشست حاصل کر سکتی ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کا متحد ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ انتخابات میں توقع کی جا رہی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے 9 منحرف اراکین کا ووٹ پاک سرزمین پارٹی کے انتخابی اتحادی کے ساتھ ہوگا۔
پی ایس پی کسی بھی جماعت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال سکتی ہے اور وہ کم از کم ایک جنرل نشست پر بارگین کرنے کی پوزیشن میں ہے۔جوڑ توڑ کی سیاست میں اگر ایم کیو ایم پاکستان، تحریک انصاف اور منحرف اراکین کے بغیر دیگر جماعتوں سے اتحاد کرتی ہے تو اس صورت میں مسلم لیگ فنکشنل کو ایک جنرل نشست دے کر ایم کیو ایم 2 جنرل نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ ایک خواتین یا ٹیکنوکریٹ کی نشست بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان موجودہ بحران سے نکل آئے ورنہ نتائج مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔