اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دبئی میں جائیدادیں بنانے والے 230پاکستانی شہریوں کو نوٹس، سوا 2کھرب کی منی لانڈرنگ کا الزام، ایف آئی اے تحقیقات کا دائرہ ہزاروں افرا تک پھیلنے کا امکان، قومی اسمبلی کمیٹی کا نیب کو ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ۔ پاکستان کےموقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کراچی نے سوا 2کھرب روپے کی منی لانڈرنگ میں
ملوث 230پاکستانیو کو دبئی میں جائیدادوں سے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کیلئے نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے دبئی میں غیر قانونی طور پر جائیدادیں بنانے والے شہریوں کی کل تعداد 4سو بتائی جاتی ہے اور مذکورہ نوٹسز پہلے مرحلے میں جاری کئے گئے ہیں۔ تحقیقاتی ریکارڈ کے مطابق مجموعی طور پر 7کھرب روپے کی منی لانڈرنگ سے دبئی میں جائیدادیں خریدی گئیں جن افراد نے خریدیں ان میں میڈیا مالکان، ریٹائرڈ جرنیل و ججز کے علاوہ سیاستدانوں سمیت اداکار، وکلا اور ڈاکٹرز شامل ہیں۔ نوٹسز کا جواب نہ دینے والے پاکستان کے خلاف بھی قانونی کارروائی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے نوٹس کے بعد ایف آئی اے کو کارروائی شروع کرنا پڑی ۔ پہلے مرحلے میں کراچی کے 4ہزار رہائشیوں میں سے 230افراد کو ان کی دبئی میں جائیدادوں سے متعلق نوٹس تیار کر کے ان کا اجرا شروع کیا گیا ہے۔ جن افراد کو نوٹسز جاری کئے گئے ہیں ان میں میڈیا مالکان، ریٹائرڈ جرنیل و ججز کے علاوہ سیاستدان ، اداکار، وکلا اور ڈاکٹرز شامل ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ نے نومبر 2015میں رقوم غیر قانونی طور پر باہر منتقل کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر اس پر عملدرآمد نہ ہو سکا تاہم اب سپریم کورٹ کے احکامات پر اب اس انکوائری پر کام شروع کر دیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس منی لانڈرنگ کے پیچھے خانانی اینڈ کالیا کا ہاتھ تھا ۔ سپریم کورٹ کے حکم ملنے کے بعد ایف آئی اے کراچی نے خانانی اینڈ کالیا سے حاصل ہونےو الے ریکارڈ پرنوٹس جاری کئے ہیں جس میں ایف آئی کو سوا دو کھرب روپے کی منی لانڈرنگ کے شواہد ملے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ بینک کھاتے بے نامی اکائونٹس کے طور پر استعمال ہوتے تھے جو کہ خانانی اینڈ کالیا گروپ کے
ڈائریکٹرز اور چیئرمین کے ذریعے آپریٹ کئے جاتے تھے۔ اس کیلئے خانانی اینڈ کالیا نے ٹرانزیکشنز اپنی ویب سائٹ کے ذریعے کی اور مذکورہ معاملہ سٹیٹ بینک آف پاکستان سے خفیہ رکھا کیونکہ اس ویب سائٹس کے ذریعے پیسوں کی غیر قانونی منتقلی کا کام لیا جا رہا تھا۔ خانانی اینڈ کالیا نے کالے دھن کی بیرون ملک منتقل کرنے کیلئے بے نامی بینک کھاتوں کا استعمال کیا تھا۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے
کہ کسی ایک پاکستانی نے بھی 1990کے بعد بیرون ملک سرمایہ کاری سے متعلق اسٹیٹ بینک کو آگاہ نہیں کیا۔ دبئی میں جائیدادیں بنانے والوں میں پاکستانی تیسرے نمبر پر ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانے نے دبئی سمیت بیرون ممالک میں پاکستانیوں کی جانب سے اربوں ڈالر کی غیر قانونی سرمایہ کاری پرنیب کو ریفرنس بھیجنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا ہے۔ رئیل سٹیٹ کی رجسٹریشن کے
حوالے سے مسائل کے حل کیلئے میاں عبدالمنان کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دیدی گئی۔ کمیٹی اجلاس میں بتایا گیا کہ ایف آئی اے نے دبئی کی رئیل سٹیٹ میں غیر قانونی سرمایہ کاری کے حوالے سے 100افراد کی فہرست دی تھی جس کو ایف بی آر کے حوالے کیا گیا تھا۔ ایف بی آر کو سفارش کی گئی تھیہ کہ اگر متعلقہ دبئی کے حکام جواب نہیں دے رہے تو وزیراعظم یا اعلیٰ سطح پر
معاملہ کو اٹھایا جائے۔ کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ دبئی سمیت دیگر ممالک میں پاکستان سے غیر قانونی طور پر رقوم کی منتقلی کے حوالے سے تحقیقات کر کے کارروائی کی جائے۔ ایف بی آر کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایف آئی اے کی جانب سے فراہم کی گئی فہرست پر دبئی حکام سے معلومات کیلئے رابطہ کیا تھا جس پر انہوں نے 55افراد کی فہرست بھیجی ہے اور باقی معلومات فراہم کرنے کا کہا ہے،
35افراد کے پاسپورٹ فراہم کئے گئے ہیں، معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں،ٹیکس نادہندگان کو نوٹس بھیجیں گے۔ کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ معاملہ پر تحقیقات کیلئے نیب کو ریفرنس بھیجا جائے گا۔ کمیٹی نے ایس ای سی پی کی انسائیڈر ٹریڈنگ کی روک تھام کے حوالے سے کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔