پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک) خیبرپختونخوا کی مثالی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ، صوبے میں ہونے والے تین بڑے واقعات کے ملزمان تاحال گرفتار نہ ہوسکے جبکہ تین نامزد ملزمان کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہے ۔اسماقتل کیس میں ابتدائی پیش رفت کے بعد خیبرپختونخوا
پولیس کے لئے تین بڑے کیسز کے تینوں مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔ تیرہ اپریل دوہزار سترہ کو توہین مذہب کے الزام میں قتل کئے گئے مشال خان کا فیصلہ سنادیا گیا مگر ملزمان میں سے پی ٹی آئی کا کونسلر عارف خان ایک سال گزرنے کے باوجود بھی گرفتار نہ ہوسکا ۔ اکتوبر دوہزار سترہ میں ہی پختونخوا کے ضلع ڈی ائی خان میں شریفہ بی بی کی برہنہ ویڈیو بنائی گئی پولیس کی پھرتی یہ تھی کہ واقعہ میں ملوث اٹھ ملزمان کو تو گرفتا رکرلیا مگر پی ٹی آئی کے مقامی رہنما سجاول کو تاحال گرفتار نہ کرسکی ۔ رواں سال کے پہلے مہینے میں کوہاٹ میں میڈیکل کی طلبہ کو گولی ماری گئی۔ مرکزی ملزم اور تحریک انصاف کے سرکردہ کارکن مجاہد آفریدی سعودی عرب فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، صوبے کے تین بڑے کیسز میں تحریک انصاف کے رہنماؤں کا گرفتار نہ ہونا بڑا چیلنج اور پولیس میں سیاسی مداخلت کی دعویداروں کی اعلانات پر کئی سوال کھڑے کر دئیے ۔ تین نامزد ملزمان کا تعلق حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہے ۔اسماقتل کیس میں ابتدائی پیش رفت کے بعد خیبرپختونخوا پولیس کے لئے تین بڑے کیسز کے تینوں مرکزی ملزمان کی عدم گرفتاری بڑا چیلنج بن گیا ہے ۔