اسلام آباد (آن لائن) سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے کہا ہے کہ میں نے نقیب اللہ محسود کو نہ پکڑا اور نہ ہی میں نے اسے مارا، پولیس مقابلے کی جگہ دیر سے پہنچا تھا، راتوں رات مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے نقیب اللہ محسود کو مارا، غلطی ہوسکتی ہے لیکن مجھے صفائی کا موقع نہیں دیا گیا، نقیب اللہ محسود کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا گیا۔پیر روز کے روز نجی ٹی وی سے گفتگو میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے کہا کہ جمعرات کے روز مجھے
کمیٹی کی طرف سے نوٹس ملا کر آپ نے 11 بجے پیش ہونا ہے، میں جمعہ کے روز پورے گیارہ بجے اس جگہ پہنچ گیاتھا، میڈیا گواہ ہے۔ میرا بیان ریکارڈ ہوگیا تھا میں کمیٹی کے سامنے پیش ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے موقع نہیں دیا گیا کہ میں وضاحت کرتا کہ جو 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں ان میں سے 1 کے بارے میں سوال اٹھ رہے ہیں میں پولیس مقابلے کے بعد وہاں پہنچا، مجھ پر بھروسہ نہیں کیا گیا۔ مجھے وضاحت پیش کرنے کاموقع نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خود معاملے کی انکوائری کی کہ نقیب اللہ نامی دہشت گرد کا ساتھی جیل میں قید دہشتگرد قاری احسان اللہ کا ساتھی ہے۔ جیل سے اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ احمد خراسانی نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اب ایس ایس پی راؤ انوار کو نہیں چھوڑیں گے۔ دہشتگردی کے خلاف پاک فوج پولیس اور عوام نے بہت قربانیاں دیں۔ خدارا ان قربانیوں کو ضائع نہ کیا جائے یہ جنگ صرف راؤ انوار کی جنگ نہیں قوم کی بقاء کی جنگ ہے یہ تاثر دیا گیا کہ نقیب اللہ کو میں نے گرفتار کیا اور میں نے اسے پولیس مقابلے میں مارا، پولیس مقابلے کی جگہ پر میں موجود نہیں تھا، بعد میں میں جائے وقوعہ پر پہنچا۔ راؤ انوار نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ نقیب اللہ بے گناہ ہو، جنگ میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ جان بوجھ کر میں نے نقیب اللہ کو قتل کیا ہو، فضائی حملوں میں بھی کئی بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے وزیر داخلہ سندھ نے کہا تھا کہ نقیب اللہ مارا گیا۔ اب کہا جارہا ہے کہ نقیب اللہ بے گناہ مارا گیا، راتوں رات مجھ پر الزام لگا دیا گیا کہ میں نے نقیب اللہ محسود کو پکڑا اور مار دیا۔ نہ میں نے اسے پکڑا اور نہ میں نے اسے مارا۔ قسم کھا کر کہتا ہوں میری اس میں کوئی بدنیتی نہیں تھی