اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سابق ایس ایس پی ملیر رائو انوار نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد ایک بار پھر خبروں کی زینت بن چکے ہیں، 1980میں اے ایس آئی بھرتی ہونے والے رائو انوار آج ایس ایس پی کے عہدے سے معطل ہوئے ہیں۔ اے ایس آئی سے ایس ایس پی کے عہدے تک کا سفر رائو انوار نے کیسے طے کیا؟
اس حوالے سے دنیا نیوز کی رپورٹ میں انکشافکیا گیا ہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر 1980ء کی دہائی میں اے ایس آئی بھرتی ہوئے، سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے۔1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے دوران راؤ انوار پیش پیش رہے، سابق جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کو قومی دہارے میں شامل کیا گیا تو راؤ انوار طویل رخصت پر دبئی جا بسے۔2008 میں پیپلز پارٹی نے سندھ میں اقتدار سنبھالا تو راؤ انوار دوبارہ کراچی آن وارد ہو۔ سہراب گوٹھ کے آس پاس مبینہ پولیس مقابلوں کے دوران راؤ انوار کی قیادت میں درجنوں مبینہ شدت پسند مارے گئے۔راؤ انوار کا پہلا مقابلہ 2016 میں ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا، جس میں فہیم کمانڈو مارا گیا۔2015 میں متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے را سے روابط رکھنے کے الزامات کی پاداش میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا دیا لیکن یہ معطلی بھی عارضی رہی۔2016 میں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے راؤ انوار کو آخری بار اس وقت معطل کیا۔ جب ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کیا۔ تاہم چند ماہ بعد وہ دوبارہ اسی منصب پر بحال ہو گئے۔کراچی کے میئر وسیم اختر کو بھی راؤ انوار نے ہی گرفتار کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں،
ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر فاروق ستار انہیںپیپلز پارٹی کی قیادت کا خاص الخاص قرار دے چکے ہیں۔ 2015 کو عیدالضحیٰ پر راؤ انوار نے زرداری ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ عید نماز ادا کی۔بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ راؤ انوار پاکستان ریاست کے طاقتور حلقوں کے بھی نور نظر ہیں،
اسے گڈ لککہیں یا بیڈ لک، ہر انکوائری سےکلین چٹ پانے والا این کاؤنٹر اسپیشلسٹ اس وقت قانون کے شکنجے میں آ گیا ہے۔