نئی دہلی(سی پی پی) بھارت چین کی فوج کی ڈوکلام میں ممکنہ واپسی سے خوفزدہ ہو گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق چین کی فوجی قوت سے خوف زدہ بھارت سکم۔بھوٹان۔ تبت ٹرائی جنکشن کے قریب متنازع علاقے شمالی ڈوکلام پرنظر رکھے ہوئے ہے جبکہ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اسی سطح پر آگئے ہیں جیسے گزشتہ برس فوجوں کے
آمنے سامنے آنے سے قبل تھے۔رپورٹس کے مطابق سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو خدشہ ہے کہ سردی کا سخت موسم ختم ہونے کے بعد چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے)کے فوجی اپنی قوت دکھانے کے لئے بڑی تعداد میں ڈوکلام کے علاقے میں واپس آسکتے ہیں۔ایک بھارتی عہدیدار کا کہنا ہے کہ چینی فوج نے شمالی ڈوکلام پر انفرااسٹرکچر بنالیا ہے لیکن ہماری افواج خطے کے اعتبار سے بہتر پوزیشن پر ہیں۔عہدیدار نے دعوی کیا کہ ہم انتظار کرو اور دیکھو کی حالت میں کسی بھی مہم جوئی کے لئے تیار ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شمالی ڈوکلام میں تقریبا16سو چینی فوجی قیام پذیر ہیں اور مستقل موجودگی کے لئے ہلی پیڈ، سڑکیں، شیلٹرز اور اسٹورز بھی تعمیر کرلئے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل راوت کا کہنا ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی اب بھی شمالی ڈوکلام کے ایک حصے میں موجود ہیں لیکن ان کی تعداداتنی نہیں جتنی پہلے دیکھی گئی تھی۔انہوں نے انفرااسٹرکچر بھی تعمیر کرلیا ہے جو بیشتر عارضی نوعیت کا ہی لیکن ہم بھی وہاں موجود ہیں، اگر وہ آگے بڑھے تو ہم سامنا کریں گے۔واضح رہے کہ ڈوکلام ہمالیائی علاقے کا وہ پہاڑی علاقہ ہے جہاںگزشتہ سال جون میں اس وقت تنازع پیدا ہو گیا تھا جب چین کی جانب سے سڑک کی تعمیر کی کوشش کے بعد چین اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے آگئی تھیں۔چین اور بھوٹان کے درمیان اس خطے
پر تنازع ہے جبکہ بھارت بھوٹان کے دعوے کی حمایت کرتا ہے۔