لندن (نیوزڈیسک)دولت اسلامیہ فی العراق و شام، یا محض دولتِ اسلامیہ، حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے آج سے پہلے اتنا زیادہ امیر دہشتگرد گروہ نہیں دیکھا ہوگا۔چند ماہ کے اندر اندر دولتِ اسلامیہ کے خزانے میں اربوں ڈالر آ چکے ہیں اور اس گروہ نے عراق اور شام جیسی بڑی افواج سے پنجہ آزمائی شروع کر رکھی ہے۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ بربریت سے بھرپور ان جنونی دہشتگردوں کے پاس اتنا پیسہ آیا کہاں سے اور وہ اسے کیسے استعمال کر رہے ہیں۔دولتِ اسلامیہ کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ تیل ہے۔ اتحادی فوجوں کے متعدد فضائی حملوں کے باوجود اب تک یہ گروہ شام اور عراق کے تیل کے بڑے بڑے ذخائر پر قبضہ کر چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سمگلروں کی مدد سے بلیک مارکیٹ میں یا دوسرے غیر قانونی طریقوں سے تیل فروخت کر کے دولتِ اسلامیہ ہر ہفتے 20 لاکھ ڈالر بنا رہی ہے۔ ہماری تحقیق بتاتی ہے کہ دولت اسلامیہ اپنے دشمنوں کو بھی تیل فروخت کر رہی ہے جن میں شامی صدر بشارالاسد کی حکومت بھی شامل ہے۔بیش قیمت اور نادر تاریخی مقامات کو تباہ کرنے کے علاوہ دولتِ اسلامیہ کے جنگجو خفیہ طور پر نوادرات فروخت بھی کر رہے اور ل±وٹی ہوئی اشیاء کے ہر سودے میں اپنا 20 فیصد حصہ بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ دولتِ اسلامیہ والے تاریخی مقامات کو تباہ کرنے کے لیے بلڈوزر بھی استعمال کر رہے ہیں۔لیکن شاید یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس گروہ کی ایک نہایت گھٹیا کمائی کا ذریعہ بربریت سے بھرپور ویڈیوز ہیں۔ یہ گروہ اب تک امریکی اور برطانوی مغویوں کو کیمرے کے سامنے موت کی نیند سلا چکا ہے، لیکن چند ممالک ایسے بھی جو اپنے مغویوں کی رہائی کے لیے تاوان بھی دے چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ یہ گروہ تاوان میں چار کروڑ ڈالر کما چکا ہے۔ اس کے علاوہ دولتِ اسلامیہ بھتے کے ذریعے بھی لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔امریکی وزارت خزانہ کے بقول اس گروہ کا ’طریقہ واردات وہی ہے جس طرح کوئی بھی مافیا کاوباری دنیا سے بھتہ لیتا ہے۔‘ان ذرائع آمدن کے علاوہ دولتِ اسلامیہ کا سب سے حیران کن ذریعہ معاش یہ ہے کہ یہ اپنی دشمن طاقت یعنی عراقی حکومت سے بھی پیسے بنا رہا ہے۔ آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ موصل پر قبضے کے بعد سے دولتِ اسلامیہ سرکاری ملازمین کو مسلسل تنخواہیں دے رہی ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اپنے دیگر ذرائع کی طرح دولتِ اسلامیہ والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے بھی اپنا حصہ کاٹ رہے ہیں۔اس سے قبل ہماری نظر سے کوئی ایسی شدت پسند تنظیم یا گروہ نہیں گزرا جو اس قدر زیادہ منظم ہو۔ دولتِ اسلامیہ کے پکڑے جانے والے رہنماو¿ں ابو حجّار اور عبدالرحمان البلاوی سے برآمد کی جانے والی بے شمار دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تنظیم میں مختلف عہدوں اور ذمہ داریوں کو بڑے مفصل طور پر مختلف افراد میں تقسیم کیا گیا ہے۔اس گروہ میں سب سے اوپر نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی کا نام آتا ہے اور اس سربراہ کے نیچے مختلف اداروں کا ایک سلسلہ ہے جن میں شوریٰ کونسل، کابینہ، فوجی کونسل، شریعہ کونسل اور سکیورٹی کونسل شامل ہیں جن میں دولتِ اسلامیہ کے مختلف صوبوں یا ’ولایتوں‘ کے گورنر شامل ہوتے ہیں۔ ان مشاورتی اداروں کے علاوہ معاشرتی رابطوں کے ویب سائٹس پر بھرپور پروپیگنڈے کے لیے پیشہ ور ماہرین کی ایک ٹیم ہے جو ’الحیات‘ چلاتی ہے۔اس بے مثال دہشتگرد تنظیم کی بنیاد ان برسوں میں بڑی احتیاط کے ساتھ رکھی گئی جب عراق میں القاعدہ کی شاخ دم توڑ رہی تھی۔ اس کے لیے القاعدہ فی العراق کی ناکامی سے سبق حاصل کیا گیا، خاص طور پر یہ سبق کہ کسی بھی تگڑے دہشتگرد گروہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہت منظم ہو اور اس کے پاس ذرائع آمدن کی ضمانت ہو۔جدید اداروں اور تنظیموں کی طرز پر دولتِ اسلامیہ اپنی سالانہ رپورٹیں یا جائزے بھی شائع کرتی ہے جن میں غیر ملکی جنگجوو¿ں کی بھرتی کے اہداف، مغویوں اور ہلاک کیے جانے والوں کی تفصیل اور یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ تنظیم نے گذشتہ عرصے میں کتنے ’کافروں‘ کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا۔شام میں جاری خانہ جنگی ایک ایسا تنازعہ ہے جس نے شدت پسندوں کی ایک نئی نسل کو جنم دیا ہے۔ چار سال پہلے شروع ہونے والی اس خانہ جنگی کے بعد سے اب تک تقریباّ 12 ہزار غیر ملکی جنگجو جہادیوں کی آواز پر لبیک کہہ کر شام جا چکے ہیں، اور ابھی مزید جانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ان غیر ملکی جنگجوو¿ں کا تعلق دنیا کے 80 مختلف ممالک سے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی ممالک سے تین ہزار افراد شام گئے جن میں سے چھ سو سے زائد کا تعلق برطانیہ سے تھا۔دولتِ اسلامیہ بھرتی کے لیے جو پروپیگنڈا استعمال کر رہی ہے وہ کسی مقناطیسی کشش سے کم نہیں۔ برطانیہ کے شہر لوٹن کے اسلامی مرکز کے چیئرمین عبدالقدیر بخش نے بڑی تفصیل سے ہمیں بتایا کہ کس طرح نوجوان برطانوی مسلمان اس ملک سے تنگ آ کر شام جا رہے ہیں۔دولتِ اسلامیہ کا پیغام ہے کہ ’شام پہنچ جاو¿، بندوق ہم تمہیں دیں گے۔۔۔۔ اور واپسی پر تمہارے پاس تمہاری اپنی بندوق ہو گی۔‘تاہم اب برطانوی حکومت کو کچھ کامیابی ہو رہی ہے۔ برطانوی حکومت کے سینیئر اہلکار نے ہمیں بتایا کہ جتنے جہادی برطانوی سے شام گئے ہیں تقریباّ اتنے ہی لوگوں کو وہاں جانے سے روکا بھی گیا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباّ شام جانے والے تین سو افراد واپس برطانیہ آ چکے ہیں۔مغربی حکومتیں اور ان ممالک میں موجود معتدل آوازیں پوری کوشش کر رہی کہ وہ کسی طرح ان مغربی نوجوانوں کو ایک متبادل بیانیہ فراہم کریں تاکہ یہ دولتِ اسلامیہ کے پروپیگنڈے میں نہ آئیں۔ مثلاّ ایک جوان برطانوی، حمزہ اشرف شدت پسندی کے خلاف اپنا پیغام پھیلانے کے لیے مزاح کو استعمال کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کی ویڈیوز کو اب تک لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔جس چیز نے دولتِ اسلامیہ کی زندگی تبدیل کر دی، وہ کچھ اور نہیں بلکہ معاشرتی ربطوں کی ویب سائٹس پر اس گروہ کے کئی اکاو¿نٹ ہیں جن کے ذریعے اس نے برطانوی جنگجوو¿ں کو بھرتی کرنے لیے بے شمار پر کشش پیغامات جاری کیے ہیں۔ ان پیغامات کی تعداد کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے روزانہ ان اکاو¿نٹس کے ذریعے 90 ہزار پیغامات انٹرنیٹ پر چڑھائے جاتے ہیں۔حکومت کے دفتر برائے سکیورٹی و انسدادِ دہشتگردی کے ڈائریکٹر چارلس فار کو احساس ہے کہ انٹرنیٹ کو دولتِ اسلامیہ کس انقلابی انداز میں استعمال کر رہی ہے۔ ان کے بقول ’ دولتِ اسلامیہ وہ پہلی تنظیم ہے جس نے معاشرتی رابطوں پر فراہم کی جانے والے تمام سہولتوں کا بھرپور فائدےہ اٹھایا ہے۔‘’یہ تنظیم ٹوئٹر پر ہزاروں اکاو¿نٹ چلا رہی ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے پچھلے سال اس نے 30 ہزار ٹوئٹر اکاو¿نٹ کھولے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ فیس ب±ک استعمال کر رہے ہیں، ٹمبلر استعمال کر رہے ہیں اور ان کے علاوہ اپنا پیغام عام کرنے کیے کئی دوسرے ذرائع استعمال کر رہے ہیں۔‘دولتِ اسلامیہ کا وحشیانہ پن اور اس کی بربریت دیکھ کر دنیا ششدر رہ گئی ہے۔ یہ بربریت صرف مغویوں کو قتل کرنے کی وڈیوز تک محدود نہیں بلکہ یہ گروہ گاو¿ں کے گاو¿ں ہلاک کر چکا ہے۔ عورتوں کو غلام بنا چکا ہے۔ یہ قتل عام ایک تاریک باب ہے لیکن یہ دولتِ اسلامیہ کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں