لاہور( این این آئی) متحدہ اپوزیشن کے زیر اہتمام سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قصورپرحصول انصاف کیلئے آج ( بدھ) کو مال روڈ پر احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا جائے گا ،پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے سربراہ ڈاکٹر آصف علی زرداری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت اپوزیشن جماعتوں کی قیادت اور مرکزی قائدین جلسے میں شرکت کریں گے ، ضلعی انتظامیہ نے اپوزیشن کو مال روڈ پر جلسے کی باضابطہ اجازت دینے سے انکار کردیا ہے جبکہ کیپٹل سٹی پولیس چیف نے پیپلز پارٹی اور عوامی تحریک کے
ذمہ داران کو خط ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں دہشتگردی کے خدشے کی مصدقہ اطلاعات ہیں ، آصف زردار ی اور عمران خان کی شرکت انتہائی سکیورٹی رسک ہے ، اہم سرکاری تنصیبات کی حفاظت کے لئے رینجرز کی تین کمپنیاں طلب کر لی گئیں۔تفصیلات کے مطابق عوامی تحریک کے زیر اہتمام ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی ایکشن کمیٹی کی کال پر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قصور پر حصول انصاف کیلئے آج بدھ کے روز مال روڈ پر دوپہر بارہ بجے احتجاجی جلسے کا انعقاد ہوگا جس میں عوامی تحریک ،پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف، مسلم لیگ (ق)، عوامی مسلم لیگ ، جماعت اسلامی ، سنی اتحاد کونسل، مجلس وحدت المسلمین سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کی قیادت ،مرکزی رہنما اور کارکن شرکت کریں گے ۔تمام جماعتوں کی قیادت نے اپنے اپنے کارکنوں کو آج مال روڈ پر منعقدہ جلسے میں بھرپور شرکت کی ہدایت کر دی ہے اور اس سلسلہ میں تمام جماعتوں نے اپنے اپنے اجلاس منعقد کر کے کارکنوں کی شرکت کے حوالے سے انتظامات کا جائزہ لیا ہے ۔ دوسری طرف آج کے احتجاجی جلسے کیلئے فیصل چوک میں پنجاب اسمبلی کے سامنے اسٹیج کی تیاری شروع کر دی گئی ہے جبکہ فیصل چوک سے مسجد شہداء کی جانب کرسیاں بھی لگادی گئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے طو رپر سکیورٹی انتظامات کیلئے حکمت علی طے کی ہے۔ پولیس نے بھی آج کے جلسے کیلئے
سکیورٹی انتظامات شروع کردئیے ہیں اور اس سلسلہ میں پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران کا اجلاس بھی منعقد ہوئے جس میں سکیورٹی انتظامات کے حوالے غوروخوض کیا گیا ۔ لاہور کے علاوہ دیگر اضلاع سے بھی نفری طلب کر لی گئی ہے ۔ضلعی انتظامیہ نے اہم سرکاری سرکاری عمارتوں کی حفاظت کے لئے رینجرز کی تین کمپنیاں طلب کر لی ہیں جو ان عمارتوں کی حفاظت کے لئے اندر ونی حصے میں تعینات ہوں گی ۔بتایا گیا ہے کہ تمام جماعتوں کے لاہور کے علاوہ قریبی اضلاع سے بھی کارکن بھی جلسے میں شریک ہوں گے ۔
عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے جس میں احتجاجی جلسے اور آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہر القادری کا پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر آصف علی زرداری سے بھی ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں حکمت عملی بارے تبادلہ خیال کیا گیا ۔دوسری طرف ڈپٹی کمشنر لاہور کی جانب سے واضح کہا گیا ہے کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر احتجاجی جلسے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کی صورت میں جلسہ انتظامیہ ذمہ دار ہوگی۔ مزید کہا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے حکم اوردفعہ144کے تحت مال روڈ پراحتجاج نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف ایجنسیوں نے بھی سکیورٹی خدشات سے متعلق آگاہ کیا ہے ۔سی سی پی او کی طرف سے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے ذمہ داران کو خط لکھ کر آگاہ کیا گیا ہے کہ شہر میں احتجاجی جلسہ کرنا سکیورٹی رسک ہے،قائدین سے درخواست ہے کہ اپنا احتجاجی پروگرام ختم کردیں۔لاہور میں دہشتگردی کے خدشے کی مصدقہ اطلاعات ہیں ،عمران خان اور آصف زرداری کا شرکت کرنا انتہائی سکیورٹی رسک ہے۔ علاوہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے شیخ رشید احمد ، قمر زمان کائرہ ،منظور وٹو ،کامل علی آغا ، عبد العلیم خان ،خرم نواز گنڈا پور سمیت دیگر کے ہمراہ ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ آج 17جنوری کو جو تاریخی ،عظیم الشان اور فیصلہ کن احتجاج شروع ہو رہا ہے اس سلسلہ میں تمام امور اتفاق رائے سے طے کر لئے گئے ہیں، جو بنیادی چیزیں طے شدہ تھیں انکی تفصیلات بھی مکمل طو رپر طے کر لی گئی ہیں اور مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ میں لوگوں کا تذبذب ، قیاس آرائیوں اور بحثوں کو اپنے اعلان سے ختم کرنے لگا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ 17جنوری سے شروع ہونے والے احتجاج میں ایک ہی کنٹینر اور ایک ہی اسٹیج ہوگا ،آصف علی زرداری اور عمران خان یہیں سے خطاب کریں گے ۔احتجاج دوپہر بارہ بجے شروع ہوگا اور اس کیلئے عوام ، کارکنان اور تمام جماعتوں کی قیادت کو اطلاع کر دی گئی ہے ۔ یہ احتجاج طویل دورانیہ کا ہوگا اس لئے اسے دو سیشنز میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن اس میں چند منٹوں کا وقفہ ہوگا ۔آج پوری قوم کو ایک پیغام جائے گا کہ حصول انصاف ، تکریم انسانیت ،جبر ،ظلم ، بربریت اورفرعونیت کے خاتمے کے لئے پاکستان کی ساری قومی سیاسی قیادت یکجا ہے ۔17جنوری سے شروع ہونے والے احتجاج کے اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کر لیا گیا ہے مگر اس کا اعلان اسٹیج پر ہوگا اورجو بھی اعلان ہوگا وہ اعلان پیرا میٹرز فکس کر دے گا اور ان پیرا میٹرز میں صرف اپنے اوپر ایک ہی پابندی رکھی ہے جبکہ باقی ساری پابندیاں ختم کر دی ہیں ۔احتجاج میں اٹھنے والا ہر قدم آئین ،جمہوریت اور امن کے دائرے کے اندر ہوگا ،ہم نہ آئین توڑنے والے لوگ ہیں نہ کبھی توڑنے کا سوچ سکتے ہیں اورنہ جمہوریت توڑنے والے لوگ ہیں بلکہ ہم نے حقیقی معنوں میں جمہوریت بحال کرنی ہے ،یہ تحریک بحالی آئین ،بحالی جمہوریت او رامن کی تحریک کے ساتھ خاتمہ ظلم کی بھی تحریک ہے ۔ہم نے اپنے لئے جو پابندی رکھی ہے وہ آئین ،جمہوریت او رامن کی پابندی ہے اس کے علاوہ آج سے شروع ہونے والے احتجاج میں کوئی پابندی نہیں ہم فیصلوں کا آج بھی اعلان کریں گے اور لمحہ بہ مزید فیصلے کرتے جائیں گے ور آخر نتیجہ یہی ہے کہ ظلم جبر قتل و غارت گری اور بربریت پر قائم ہونے والی طاقت سلطنت شریفیہ شہباز شریف ،رانا ثنا اللہ او رقاتلین کے گروہ اور ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگا ۔ہم ان سے استعفے مانگنے نہیں جارہے اب انہیں استعفے دینا ہوں گے اور اپنے آپ کو قانون کے آگے سرنڈر کرنا ہوگا ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی اتنی بڑی کامیابی ہے کہ تمام سیاسی قومی لیڈر شپ قانون کی بالا دستی اور حصول انصاف کے لئے ظلم کے خلاف سینہ سپر اوریکجا ہو کر ایک ہی مقام پر نکل آئی ہے ۔انہوں نے آصف زرداری او ر عمران خان کے مختلف سیشنز میں شریک ہونے کے سوال کے جواب میں کہا کہ بعض ایسی چیزیں ہیں جو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ، لطف اندوز ہونے کیلئے آج کا دن انتظار کرنا ہوگا اگر میں نے سب کچھ آج بتا دیا تو 17جنوری کو آپ کیا لیں گے ۔انہوں نے فواد چوہدری کے بیان کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہر پارٹی کے لیڈر کو نقطہ نظر بیان کرنے میں آزادی ہوتی ہے ہوگا وہی جو میں بتا رہا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ شیخ رشید تو اول دن سے جھنڈا اٹھا کر چل رہے ہیں ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس تحریک کی کامیابی پر کوئی مین آف دی میچ ہوگا تو وہ شیخ رشید ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی ،(ق) لیگ ،سنی اتحاد کونسل ،مجلس وحدت المسلمین ،جماعت اسلامی کیا چاہتی ہے اس کے بارے میں آج آپ اپنے کانوں سے سن لیں گے اور احتجاجی جلسے میں جو بیان آئے گا وہ حتمی ہوگا ۔ انہوں نے سکیورٹی خدشات کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری زندگی میں ایسا کونسا زمانہ گزرا ہے جس میں خطرات نہ ہوں ، ہم خطرات میں رہے ہیں اور اس کے ساتھ پلے بڑھے ہیں ، جو خطرات سے ڈرتا ہے وہ جدوجہد نہیں کر سکتا۔ طاہر القادری نے کہا کہ حکمران ، پنجاب حکومت کی کیا حکمت عملی ہے وہ کیا سوچ بچا ر ہے کر رہے ہیں ان کی خفیہ میٹنگ کا ایجنڈامیرے پاس پہنچ چکا ہے ، میٹنگز میں کون کون شریک ہوئے وہ نام بھی میرے پاس پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یک نکاتی ایجنڈے پرفوکس ہے جو حصول انصاف ہے ۔آج صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورت کو از خود نوٹس لینا پڑ رہا ہے ،کیا پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ اورچیف جسٹس کا یہ کام ہے کہ وہ ہسپتالوں کی ویرانی بھی دیکھیں اورنوٹس بھی لیں ،تعلیمی اداروں کی بربادی دیکھیں ۔ لوگوں کی بچیوں اور بچوں کی عزتیں محفوظ نہیں ،لوگ بلک رہے ہیں ،ہر وہ کام جو انتظامیہ اورایگزیکٹو کا ہے وہ اعلیٰ عدلیہ کو کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اربوں روپے کا بجٹ یہ حکمران کھا گئے ہیں۔ یہ وہی جدوجہد ہے جس میں سارے ایشوز آتے ہیں جب یہ انصاف ملے گا توتمام ایشوز حل ہونے کاراستہ ملے گا۔ انہوں نے بتایا کہ عمران خان سے مشاورت ہو چکی ہے جبکہ آصف علی زرداری سے بھی رابطہ ہوا ۔